تحریر: منظور راہی
مجھے میرا سوال ہی پوچھنے لگا۔۔۔۔۔۔ بتاؤ کہ تم کیا ھو ؟
سوال میرے آتی پالتی مار کر میرے سامنے بیٹھا گیا۔ اور میرے گونگے لفظ میرے ہٹوں پر تھر تھرانے لگے۔
پھر ہم سب نے یک زبان ھو کر سوال کا جواب دیا کہے بھائی ھم سب کچھ نہیں ہم تو کوہلو کے بیل کی طرح ہیں ہماری آنکھوں پر چمٹرے کے بنانے ھوئے کھوپے باندھ دیے ہیں
اور پھر ھم سب کولہو آگئے چکر کاٹتے رہتے ہیں ھم نے یہ سفر ابھی کتنا طے کرنا ھے! ھم سب کو کھانے میں گھاس، پھوس اور چارہ دیا جاتا ھے اس میں بھی زہر کی آمیزش ہوتی ہے مگر ہم پھر بھی جیئے جا رہیں ہیں۔
ہماری سوچیں اور اعصاب بالکل ناکارہ ھوتے جا رہیں مگر ھم سب پھر بھی جیئے جا رہے ہیں اور ہمارے ہونٹوں پر لوہا کی پتلی سی تارے لے کر سیہ دیا گیا ہیں ۔ کانوں میں ایسا کیمیکل اُنڈیل دیا گیا ھے کہ اب ھم کچھ بھی نہیں سُن سکتے۔ مگر ھم پھر جے رھے ہیں۔ اب ھم سب کو ان لوگوں کے قدموں کی چاپ سنائی دینا شروع ھو گئی ہے۔ جو بہت تیز تیزقدموں سے بھاگ رہے ہیں مگر افسوس ان لوگوں کو بھی علم نہیں کہ ھم کہاں جا رہے ہیں؟
کسی وقت سے ھم نقاہت اور کمزوری سے چکر کاٹتے کاٹتے تھک جاتے ہیں گرنے کو ھوتے ہیں تو ھماری پیٹھ پر ایک زور دار چابک مارا جاتا ھے مگر ھم چیخ بھی نہیں سکتے اور کولہو کے آگے پھر چلنا شروع کر دیتے ہیں ھم کچلے جا رھے ہیں پھر ایک روز میرے اندر کی آنکھ اور اندر کا کان سب کچھ دیکھنا اور سنانا شروع کر دیتا۔ ہمارے ہاں ایک جشن کا سماں تھا اونچی اونچی آواز میں ترانے گونج رھے تھا خوش ذائقہ کھانوں کی خوشبو ھماری سانسوں میں اُترانے نے لگائی۔
لوگوں کا ہجوم تھا تقریریں،نعرے بازی اور پتا چلا کہ ھماری لیے یہ سب کچھ ھو رہا ھے روپیا پیسا پانی کی طرح بہاۓ جا رہا ھے آنکھوں کے بنانے چمٹرے کے کھوپے چہروں سے اُتار دیا جاتے ہیں اور کان کو بھی صاف کر دے گیا۔ ھم سب کو کولہو کے چکر سے نکال لیے گیا۔ اور گرج دار آواز نے کہا تم سیدھے ھو کر بیٹھو مگر ھم تو سب لاچار ھو چکے تھے ھماری سب کی کمروں میں خم آ چکا تھا ھم سیدھا ھو کر بیٹھ نہیں سکتے تھا گرج دار آواز نے پُکارا اب تم سب خوش ھو؟
ھم سب نے یک زبان ھو کر کہا ھم سب خوش ہیں پھر اسی آواز نے پُکارا ھم نے آپ کے کان اور آنکھیں کھول دی ہیں آج آپ نے یہاں بیٹھ کر کھانا کھانا ھے۔ ھم سب میں سے ایک شخص نے اس پر سوال کر دیا کھانا ھم روز کھاتے ہیں
گرج دار آواز نے کہا بھائی وہ تو جانوروں کا چارہ ھوتا ھے۔ دیکھتے نہیں کہ یہ سب دیگیں اور بہت سے کھانے آپ کے لیے تیار ہیں یہ سب آپ نے کھانے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر جو ھم کہنے گے آپ نے کرنا ھے ھمارے سر جھکے ھوئے تھے کمر میں ہم کو ھمیں سے بہت تکلیف ھو رہی تھی ۔ ھم سے سیدھ ھو کر بیٹھا نہیں جا رہا تھا۔ ھم نے یک زبان ھو کر ایک نعرہ مستانہ لگایا
ھم زندگی میں زندہ ھو جاہیں گے کیا یہ درست ھے ؟ ھم سب میں سے کچھ خواتین کے بین کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں ۔ ایک عورت نے کہا ھماری عورتوں کے پستانوں میں دودھ خشک ھو چکا ھے ھماری نسل ختم ھوتی جا رہی ھے آپ ھمارے سب کچھ ہیں ھمارا خیال رکھنے والے۔ چند روز دار قہقہے ہوا میں بلند ھوۓ ان میں سے ایک نے کہا ھم اب آپ کو چارہ نہیں دین گے آپ بتاہیں کیا کھائیں گیا ؟ ھم میں سے ایک نے کہا ھمارے ہاں اناج اُگنا بند ھو گیا ھے۔ کیا ھماری زمین بانجھ ھو گئی ہیں؟ ھمارے کھانے کی حس اور ذائقے ھم سے روٹھ کر کہیں گم ھو گئے ہیں کولہو کے آگے چکر کاٹتے کاٹتے ھمارے پاؤں آبلہ پا ھو چکا ہیں اب تو ان میں پیپ اور جون رستا ھے۔ پھر زور دار آواز نے مسکراتے کہا آپ سب کچھ بھول جائیں آپ کو اناج بھی ملے گا اور سب کچھ ملے گا ان میں سے ایک ساتھی دہمی آواز میں گرج دار آواز والے سے کہہ دیتا کہ کل آپ کو اناج مل جائے گا گرج دار آواز والا شخص مسکرانے لگا۔ دہمی آواز والے نے کہا جناب جو تمھارے گوداموں میں چوہوں نے کھایا ھوا اناج پڑا وہ بے کار ہے ان کو تقسم کر دیں گے اس سے ہمارے گودام بھی صاف ھو جاہیں گے اور مسئلہ بھی حل ھو جائے گا۔
زور دار آواز نے پھر پکارا کوئی اور بات ھے تو بیان کریں ھم چاہتے ہیں کہ تم کولہو کے اس بیل سے نکل آؤ اور انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو ہمیں بس جینا ھے ہمیں جینا دو۔
ھم تو ہر روز لگے زخم اور درد سہہ سہہ کر زخم خود ہی چاٹتے ہیں گرج دار آواز نے طنزیہ انداز میں مسکراتے ھوئے کہا ھم آپ کو زندگی دیں گے تم بھرپور جیو گے۔۔۔۔۔۔۔ مگر غور سے سنو آپ کو اناج کے بدلے کچھ دینا ھو گا۔ ھم سب نے یک زبان ھو کر کہاں کیوں نہیں۔۔۔۔۔ گرج آواز نے کہا آپ کو آزادی بھی ملے گی اس کے بدلے میں آپ نے ایک کام کرنا ھے میں آپ کے لیے ایک بڑے محل میں جانا چاہتا ھوں جہاں میں جا کر تمھاری زندگی کے تمام مسائل کو حل کروا سکوں تاکہ تم جی سکو۔ اس کے عوض تم کو ایک چھوٹی سی غداری کی پرچی دی جائے گی جس پر میری تصویر اور نشان ھو گا بس اس پہ ایک مُہر لگانی ھے سامنے پڑے ڈبہ ڈال دینی ھے۔
بس پھر تمھاری تقدیر بدل جائے گی تمھاری آواز اس محل میں خود تم کو حکم دےگی۔ ھماری پرچی ڈبے میں ڈالی گئی گرج دار آواز والا شخص محل پہنچ گیا مگر ھم اس کو دیکھنے کے لیے ترس رھے لیکن وہ ہمیں چھوڑ کرمحل میں مقید ھو گیا۔ ھم پھر انتظار کرتے کرتے کولہو کے آگے جھک گئے ہمارے پاس کچھ نہیں بچا چلچلاتی دھوپ اور ٹھٹری سردی ھم سب کو نگلنے لگی۔
ھم سب آج بھی سوالیہ نشان کے سامنے کھڑے ہیں سوالیہ نشان ھمارے بازو تھامے کہتا آؤ تم رستہ بھول چکے ھو ابھی اور زندگی جینا ھے تمھارے لیے کولہو کے بیل اب بھی انتظار کر رہیں ہیں میرے سامنے دائیں بائیں صلیبیں کھٹری ہیں مگر ان صلیبیوں پر کوئی لٹکایا نہیں گیا۔ غریب’ مجبور اور بے کسی کی لاشیں پڑی ہیں اب گرج دار آواز نے کہا ان کے چہروں پہ کتنا سکوں ھے مجھے تو شک ھے یہ ابھی بھی زندہ ہیں ۔انکوصلیبیوں پر لٹک دیں
قلم کار ڈرامہ نگار افسانہ نگار ہیں انہوں نے اس آرٹیکل میں افسانوی انداز میں معاشرے کے مسائل کی نشاندہی کی ہے