سفرنامہ باسفورس میری نظر میں : منظور راہی

بک ریویو

جس روز ماں بچے کو جنم دیتی ہے۔ اُسی روز ہی انسان کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔یہ چھوٹا سا سفرماں کی آغوش سے لے کر گھر کی چار دیواری تک محدوُدہوتا ہے۔پھر یہ مسافت کے چھوٹے چھوٹے قدم آگے بڑھتے رہتے ہیں،پھر اچانک ماں جب بچے کے قدکے ساتھ ساتھ اُس کے پاوُں توانا اور صحت مند ہوتے دیکھتی ہے تو ماں اُسے گھر کی دہلیز پار کرواتی ہے تو پھر اُسکے سامنے مسافتوں اور سفر کی اکائیوں کا جال بچھا ہوا نظر آتا ہے۔اور یہ سفر کی پھر ایک اکائی اس کے پاوْں سے لپٹے ناکام کوشش کرتی ہے۔مگر اور بہت سی اکائیاں اس کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہیں اکائی کا ہر لمحہ منزل کا متلاشی ہوتا ہے۔سفر ور سفر جاری رہتا ہے۔مگر کچھ مسافتیں اور سفر پلک جھپکتے ہی نظروں سے اوجھل ہو جا تے ہیں۔مگر منزلیں اور مسافتیں اور سفر یہ سب زندگی کا چوُلی دامن کا سا تھ ہیں۔ اکژ اوقات سفر میں پتھریلی چٹانوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ہے سفر اب بات ہے کہ سفر نامہ کی۔ جس شخص کے پاس احساسات محسوسات کا ویژن ہو گا۔ وہ سفر نامہ ضرور لکھے گا کیونکہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے لے کر دریا سمندر اور پھر صحراوُں کی تبیی ریت سے وہ مکمل آشنا ہوتا ہے۔ آخر وہ محسوسات اور ویژن ان تمام مناظر جو اُس نے اپنے اندر جذب کر کے رکھے ہیں اپنے قاری کو اپنا ہمسفر بنا کر دیکھتا ہے۔ یہ سفر نامہ ہے جو کے میرے فا ضل دوست امجد پرویز ساحل نے پیش کیا ہے جس کا نام ہے (باسفورس ِ) یہ تمام احساسات محسوسات لمحات کا ایک خوبصورت سفر نامہ ہے۔ اُس نے اپنی داخلی اور خارجی اکائیوں کوبڑی ہی خوبصورتی اور ماہرانہ انداز میں تحریر کر کے اردوُ ادب میں سفر نامہ کو عزت بخشی ہے،میں انکو اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اردوُ ادب میں سفر نامہ ایک مکمل صنف ہے مگر ہمارے بہت کم لوگوں نے اضاف میں طبع آزمائی کی، میر ے فاضل دوست امجد ساحل ایک ادبی قاری ہیں کلاسیکل ادب سے بھی شغف رکھتے ہیں۔اس لیے یہ اس صف میں کام کرتے ہوئے نظر آ تےہیں جس کے پاس ذوق اور تخلیق نہیں وہ سفر نامہ نہیں لکھتا۔ وہ پھر معذرت کے ساتھ روزنامچہ لکھتا ہے مجھے مکمل اْمید ہے کہ
امجد پروپز ساحل اس سے بھی اچھا سفر نامہ اپنے قاری کو دیں گے کیونکہ ان کے پاس ذوق اور تخلیق کے دونوں طرح کے خزانے موجودہیں۔
سفر نامہ اور روزنامچہ میں کیا فرق ہے! ہم جب انبشا کا سفر نامہ پڑتے ہیں جیسے چلتے ھو تو چین کو چلئے یہ بہت مشہور ھے اسکے علاوہ ابن بطوطہ سیاحت کے بہت بڑے سفر نامہ نگار ہیں انکے خطوط کا مطالعہ کرنے سے بھی کاری کافی کچھ سکھ لیتا وہ بھی روز مرہ کی بات کرتے ہیں مگر ان سفر نامہ میں معلومات کے ساتھ ساتھ سوچ اور ویژن کا سفر جاری رہتا ہے اسے ہم سفر نامہ کہتے جیسے مستنصر حسین تارڈ اور بہت سے بڑے بڑے دیگر سفر نامہ تحریر کرنے والے ہیں جو اپنی سوچ کاری تک مناظر سے بتاۓ ہیں۔
آخر میں فاضل دوست ساحل نے اپنے سفر نامہ میں تہذیبوں کی پہچان،روایات اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں کا قریبی کلچر اور لسانیات کی بھی پہچان کرواتے ہیں سفر نامہ کی یہ ہی پہچانا ۔آخر میں پھر اپنے پیارے دوست ساحل کو اس اچھی کاوش پر مبارک باد دیتا ہوں۔
میرا یہ مضمون گزشتہ سال اس کتاب کی تعارفی تقریب لاھور میں پڑھا گیا
شکریہ

By admin

Related Post

One thought on “سفرنامہ باسفورس میری نظر میں : منظور راہی”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading