محکوم افغان خواتین طالبان کے سائے میں “تاریخی پس منظر”

 

تحریر: محمد معین

افغان طالبان کے سپریم لیڈر مُلا ہیبت اللہ نے خواتین کو زنا پر کُھلے میدان میں سنگسار کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سزا کو انجام تک پہنچانے کے لیے شرائط ہیں جن میں یہ کہ دو گواہ ہونے چاہئیں اور ان گواہوں کا ماضی صاف ہونا چاہیے۔ ہبت اللہ سماج کے ایک ایسے حصے کو ختم کرنا چاہتا ہے جسے پہلے 40 سالہ جنگ میں مرد کی حاکمیت کے نیچے رکھا گیا اسے اپنی لذت کے طور پر استعمال کیا۔

ایسے بیانات اس بات کی دلیل ہے کہ طالبان آج بھی عورتوں کی نسل کشی میں مصروف ہے ۔اس جنگ میں سب سے زیادہ برباد ہونے والی عورتیں تھی جنھیں اپنی مرضی سے جنگ بھی لڑنے نہیں دیا گیا ۔

آئیں طالبان کا ‘ صاف ماضی ‘ دیکھتے ہیں

طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں 80 فیصد عورتوں سے زبردستی شادیاں کی گئی تھیں ہبت اللہ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ان وحشی درندوں کا کیا جنھوں نے عورتوں کو زبردستی اپنا غلام بنایا، عورتوں کو سنگسار کرنے سے پہلے ان مردوں کو سزا دے ۔
نہ صرف یہ بلکہ 30 ستمبر 1996ء کو طالبان کے جاری کردہ بیان میں افغان عورتوں کے اوپر ہر قسم کے کاروبار پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور اس وقت کام کرنے والی عورتیں 25 فیصد تھی۔ ان کے تعلیم کے اوپر پابندی اور ان کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ صرف 8 سال تک کی بچوں کو تعلیم کی اجازت تھی ۔
عجیب منطق ہے کہ ایک طرف عورتوں کو تعلیم سے دور رکھو اور دوسری طرف ان کو مردوں سے علاج کرنے کی بھی اجازت نہ دو۔
طالبان کے بیان میں اس وقت کے ہرات کے گورنر مُلا رزاق نے عورتوں پر ان کے دفتر کے سامنے گزرنے پر پابندی لگائی تھی ۔
پدر شاہی نظام کو قائم کرنے میں طالبان نے عورتوں کو بڑی چالاکی سے مات دی ہے، ان پر ظلم کر کے پہلے ان کا معاشی استحصال کیا، ان کو کمزور بنا کر مردوں کا محتاج بنایا، پھر ان کو مردوں کے حوالے کر دیا ۔

خوا بیوٹی پارلر کی بندش ہو یا پھر عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی یہ تمام اسلام کے نام پر عورتوں کو کمزور بنانے کے لیے ہیں ۔
اکتوبر 1996ء میں ایک عورت کی انگلی صرف اس لیے کاٹ دی گئی تھی کہ اس نے اپنے انگوٹھے پر نیل پولش لگایا تھا۔
1999ء میں ساتھ بچوں کی ماں کو 30 ہزار لوگوں کے سامنے کابل کے غازی سپورٹس میدان میں پھانسی دی گئی تھی ۔
اور جب ایک عورت کو غیر قانونی طور پر اسکول چلانے پر گرفتار کیا تو اسے گلیوں میں گھسیٹ کے ان کی ٹانگیں توڑ دی گئی۔

کچھ عجیب وغریب قسم کی سزائے بھی عائد کی گئی تھیں، مثلاً: عورتوں کو لمبے سینڈلز پہننے پر پابندی لگائی تھی اور یہ کہا گیا کہ سینڈلز کی آوازیں مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں ، ایک اور سزا یہ تھی کہ عورتوں کے تیز آواز میں ہسنے پر بھی پابندی تھی ۔
ان پابندیوں کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان اپنی پوری طاقت کے ساتھ عورتوں کی نسل کشی کر رہے ہیں ۔
طالبان کے اثرات اب عام لوگوں میں منتقل ہونا شروع ہوچکی ہیں اور جلد ہی طالبان اس پورے علاقے کو ذہنی طور پر قبضہ کرنے جا رہے ہیں، اگر اسے روکا نہیں گیا ۔
19 مارچ 2015ء کو فرخندہ ملکزادہ ایک 27 سالہ لڑکی کو ایک ہجوم نے بغیر کسی قانونی فیصلے کے قتل کیا، یہ الزام لگایا کہ فرخندہ اسلام کے خلاف بولی ہے ۔

موجودہ دور میں بھی عورتوں کو اس سر زمین سے مٹانے کی کوشش جاری ہے طالبان عام عورتوں کے ہر طرح کے خوابوں کو کچل رہے ہیں ۔ باوجود اس کے افغانستان میں عورتوں کی آبادی تقریباً 48 فیصد پر مشتمل ہیں پھر بھی انھیں باہر نکلنے پر اور ان کے کام کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ معاشی بحران کی بڑی وجہ یہ بھی ہے ورلڈ رپورٹ 2024ء کے مطابق 28 ملین لوگ کو 2023ء میں انسانی زندگی کے بنیادی چیزوں کی ضرورت تھی

4 دسمبر 2022ء کو عورتوں کے باہر نکلنے پر پابندی کے بعد 60 ہزار کے قریب عورتوں کو بیوٹی پارلرز بند کرنے پڑے ۔ اب مُلا ہبت اللہ ہی جانتا ہے کہ ان 60 ہزار عورتوں کا ذریعہ معاش کیا ہوگا ؟

اا Brookings ” کے ویب سائٹ کے مطابق 2003ء میں 10 فیصد سے کم لڑکیاں پرائمری سکول میں تعلیم حاصل کر رہی تھی جبکہ 2017ء میں یہ تعداد 33 فیصد پر پہنچ گئی تھی
اور سیکنڈری اسکول میں لڑکیوں کی تعداد 6 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد پر پہنچ گئی تھی۔ خواتین کی متوقع عمر 2001ء میں 56 سال جبکہ 2017ء تک 66 سال تک پہنچ گئی ۔ اور ولادت کے دوران کے اموات 2000 میں 1100 فی 1 لاکھ زندہ پیدائشوں سے کٹ کر 2015 ء میں 396 فی 1 لاکھ تک پہنچ گئی ۔ تاہم یہ بھی بہت زیادہ تھی لیکن اس کے بہتری پر کام چل رہا تھا جبکہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد عورتوں کی زندگیاں پھر سے برباد ہونا شروع ہوچکی ہے ۔

میرے لیے اور آپ کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا طالبان اپنی آدھی سے زیادہ آبادی کو گھر بیٹھا کر ماشی استحصال کا خاتمہ کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب ہاں میں صرف وہی لوگ دے سکتے ہیں جو طالبان کے مدرسوں سے پڑھ کر نکلے ہوں۔ پوری دنیا دیکھ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ طالبان خود کے لیے اور افغانستان کی عورتوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading