تحریر: نبیل انتھونی
پندرہ برس پہلے سے اس جملے پر غور کر رہا ہوں کہ “مُونچھ نہیں تو کچھ نہیں “۔ حیرت کے اعلیٰ درجہ پر مشاہدہ کرتے دیکھا اکثر کلین شیو مرد پورے دیکھائی دیتے تھے یعنی ہاتھ پاؤں کان آنکھ حتی کہ ناک بھی ہوتا پھر سمجھ نہ آتا کہ ایسا کیوں کہتے ہیں ؟۔ جونہی میری سوچ کی زندگی بڑی اور میں نے ایسے کئی کلین شیو مردوں کو دیکھا جن کے پاس پیسہ ، عزت ، وقار اور خوشیوں سے بھری زندگی تھی ۔
میں نے حقیقت اور فلموں میں دیکھا جس کی داڑھی مُونچھ بالکل مُنڈھائی ہوتی وہ سب کچھ رکھتا تھا ۔ یہاں یہ ثبوت بھی پیش کرنا چاہتا ہوں ہمیشہ کلین شیو مرد کے ساتھ اُنکی بیویاں بھی اِنتہائی خوش نظر آتیں تھیں۔ لیکن یہ جملہ سُننے کو ملتا رہتا تھا مُونچھ نہیں تو کچھ نہیں ۔
پھر مجھے سمجھ آیا کہ ہمارا معاشرہ مرد کا غلبہ قائم رکھنا چاہتا ہے اور معاشرہ غیر محفوظ ہے عورت کی حکمرانی کو ناقص سمجھتا ہے اور مرد کو عورت کے مقابلے میںَ شاید زیادہ عقلمند و حکمت والا سمجھتا ہے ۔ یہ جوابات نہیں تھے سوالا ت تھے جو میرے ذہین اُبلتے ہوئے پانی کی طرح اُٹھتے رہتے ۔
ان سوالات پر سوچتا اور جواب یہ پاتا ہمارے معاشرے میں مرد پہلے ہی افضل سمجھا جاتا ہے ہم باقاعدہ مرد کی فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں اور معاشرہ سراہتا بھی ہے پھر کیوں مردوں کی فضیلت پر ہم پریشان ہیں ۔
ہاں یہ سوچ ٹھیک تھی کہ عورتوں کی آزادی ، خود مُختاری بحثیت انسان انسانی حقوق تلف ہوتے تھے مردانگی کی دیوانگی پر ۔
اور جب میں عورتوں کے حقوق سلب ہوتے دیکھتا تو دُکھ میں کہتا ہاں اِنکی کونسی مونچھیں ہیں اس لئیے اِنکا بنتا ہے پھر مجھے سمجھ آیا کہ یہ جو جملہ ہے کہ موُنچھ نہیں تو کچھ نہیں عورتوں کے لئیے کہا گیا تھا ۔
جب کبھی کوئی لڑکی گاؤں میں اپنے پسند کی شادی نہ کروا پاتی تو میں دل میںَ کہتا موُنچھ نہیں تو کچھ نہیں اور اُسی گھر کا لڑکا پسند کی شادی کروانے میں کامیاب ہو جاتا تھا ، زیادہ پرانی بات نہیں اٹھارہ سال پرانی بات ہے جب میں نے ہمسائے گاؤں کے بارے خبرسُنی کہ ایک لڑکی کو کلہاڑی سے کاٹ دیا گیا کہ اُسکا چکر کسی لڑکے کے ساتھ تھا جبکہ جس نے کاٹا اُسکا اپنا چکر کسی لڑکی کے ساتھ تھا ۔ حالانکہ یہ چکر مناسب لفظ نہیں کہنا چاہئیے تعلق میں تھے ۔ جائز اور ناجائز پر بات کی جاسکتی ہے۔
یہ بچپن کی بات ہے میں یہ خاندان ڈھونڈ نہیں سکتا لیکن اس واقعہ پر بھی میں نے کلہاڑی سے کاٹ جانے والی لڑکی کے لئیے کہا تھا مُونچھ نہیں تو کچھ نہیں ۔
جب گاؤں میں کوئی خاندان لڑکیوں کو سکول بھیجنے کے خلاف ہوتا تو اُن لڑکیوں کو بھی میں دل میں کہتا موُنچھ نہیں تو کچھ نہیں” جبکہ اُسی گھر لڑکا پڑھنے جاتا ۔
میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں معاشرہ انجان عورت کی قربت سے غیر محفوظ تھا جبکہ تعلیم اِسکو غلط ثابت کرتی ہے ۔ وہ انجان معاشرے کے لئیے ہوتی ہے جس سے تعلق ہوتا ہے اُسے تو جاننے لگتی ہے نکاح اس رشتے کو مقدس بنا دیتا ہے اس کو تبلیغ کرنا چاہئیے ۔
عورت کی کسی فطرت سے مردوں کو غیر محفوظ ٹھہرانے کی وجہ پچھلی دو صدیوں میں مغلیہ بادشاہوں کی تباہی اور سلطنت کی بربادی میں ایک پہلو یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ عورتوں میں انتہائی مشغول ہو گئے ۔ جبکہ عورت میں دلچسپی فطرتی تقاضا ہے جسکو ترتیب لگایا جا سکتا ہے اور اسی طرح عورت کی مرد میں دلچسپی بھی ۔
ہوا یوں کہ جیسے جیسے تعلیم نے زور پکڑا اور تیسری دنیا کا معاشرہ پہلی دوسری دنیا کی تصویر دیکھ کر عمر پاتا گیا اور ارتقائی مراحل سے گُزرتا گیا تو بہت سے عقدے کھُلنے لگے اور عورت کے حقوق پر کھلم کھُلا بات ہونے لگی کہا جانے لگا ضروری ہے عورتوں کو زندگی کہ تمام شعبوں میں شامل کیا جائے جو معاشرے کی ترقی کے لئیے اہم ہے اور اس نظریے پر استحکام دیا گیا اور ہر شعبے میںَ عورتوں کو مستحکم کیا گیا عورتیں مستحکم ہو بھی گئیں ۔
آج حالات بہت مختلف ہیں بلکہ اس نہج پر ہیں کہ عورت مرد سے کہیں زیادہ طاقتور ہے تعلیم کے بل بوتے پر بھی اور اُس اعتماد پر بھی جو تیسری دنیا کے مردوں نے اپنی عورتوں کو فراہم کیا ہے ۔ ہمارے مرد خود ہی کہتے رہتے کوئی غیر معقول بات پر میری بیوی نے مُجھے لٹکا دینا ہے ۔
کئی مودبانہ القابات بھی دیتے ہیں
جیسے کوئی مشوراہ کرنا ہو تو کہتے ہیں
“ اپنی گورنمنٹ سے بات کر کے بتاؤں گا”
بیوی کے لئیے شریکِ حیات کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں
مغرب یعنی پہلی دنیا میں تو مرد کے حقوق دیر سے سلب ہو رہے ہیں جسکی مثال پڑھنے کو آخری اقتباسات میں ملے گی ۔
اب یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا تیسری دنیا کے معاشرے نے عورتوں کو با اعتماد بنایا ہے اور اسی طرح مغربی دنیا میں آج بھی عورت حقوق کے معاملے میں مرد پر سبقت رکھتی ہے ۔ مغربی دنیا میں خاندانی نظام ہمیشہ سے فقدان میں ہے اور زیادہ منظم دیکھائی نہیں دیتا اسی وجہ سے ایک دوسرے پر انحصار کرنے کا رواج بھی نہیں ہے ۔ ہمارے خطے کی یہ خوبصورتی رہی ہے کہ یہاں ایک دوسرے پر انحصار کیا جاتا تھا اور کیا جاتا بھی ہے لیکن کم ہو رہا ہے جسکے باعث رشتہ توڑنا عاق کرنا یا عاق ہونا آسان ہو رہا ۔
بہت سارے ابتدائیہ جوڑے ایک دوسرے کے جوڑوں میں اس لئیے بھی بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ وہاں عورت تعلیم اور معاشی اعتبار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور عورت اِسکا اظہار بھی اس لئیے کرتی ہے کہ مرد کو ذرا قابو میں رکھنا چاہتی ہے
کچھ ڈکٹیشن لیتی ہیں یہ سب کرنے میں اور کچھ اپنے حقوق کو زیادہ بہتر استعمال کرنا جانتی ہیں جس کے باعث مرد نفسیاتی شکار ہوتے ہیں ۔
اب ایسے کئی واقعات ہیں جو خاندانی سطح پر ہوں یا ایک جگہ محلے میں رہتے ہوئے سر زد ہوتے ہیں کوئی چھوٹی موٹی بات پر لڑائی ہو گئی وغیرہ۔ مثال کے طور پر دو بچے محلے میں لڑے یہ لڑائی ایک پارٹی کے باپ اور دوسری پارٹی کی ماں کے درمیان چلے گئی سنگینی اختیار کر گئی تو اُسے پولیس میں جانا پڑا اب محلے میں کوئی نہ ہو تو عورت جا کر کہہ دے گی اِس نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ساتھ تھوڑا رو دے گی ۔
جس مرد کے بارے وہ کہہ رہی ہو گی ممکن ہے اُس شریف نے حق پر بھی ہاتھ نہ ڈالا ہو لیکن وہ عورت یہ کہہ دے گی کہ اس نے میری عزت پر ہاتھ اور بہت امکانات ہیں کہ پولیس عورت کی بات مان جائے گی ۔مرد کے حق میں پولیس کیا وہاں دیگر شہری جو کوئی اپنی شکایات پولیس اسٹیشن لے کر آئیں ہوں گے وہ بھی کوئی بات نہیں کریں گے ۔
برطانیہ میں شادی شدہ ابتدائی جوڑے کے درمیان علیحدگی ہونے لگی ایک عورت نہیں چاہتی تھی کہ اُسکے ہاں جلدی اولاد پیدا ہو جبکہ یہ ہو گیا اس عمل پر اُنکے درمیان چھوٹی چھوٹی لڑائی سے بات بگڑ گئی اور وہ علیحدہ ہو گئے عورت نے بچے کو بھی باپ کی کسٹڈی میں لکھوایا ۔
ابھی بچہ کوکھ میں ہی تھا ۔ پیدا ہونے کے بعد مختصر دورانیہ میں بچہ باپ کی کسٹڈی میں دے دیا گیا ہوا یوں کہ باپ بھی بچہ اپنی کسٹڈی میں نہیں رکھنا چاہتا تھا لیکن قانون کہ عورت جو اس معاملے پر چاہے گی وہ ہو گا ۔ یہ جوڑا چڑھتے پنجاب کا تھا جنہوں نے وہاں لو میرج کی تھی ۔
اُترتے پنجاب میں لاہور کا ایک جوڑا جسکی شادی ڈیڑھ سال بعد ٹوٹ گئی وہاں باپ بچہ اپنی کسٹڈی میں رکھنا چاہتا تھا لیکن ماں کے پاس ہے۔
لاہور کی عدالت نے کہا کہ ماں یہ چاہتی ہے۔ اب باپ بچے کو ملنے جاتا ہے تو بچے کی ماں کے گھر والے کوئی بہانہ لگا دیتے ہیں کہ ماں بیٹا کہیں باہر رشتے داروں کی طرف ہیں جبکہ عدالت صاحبہ نے اجازت دے رکھی ہے باپ کو ملنے کی لیکن وہ نہیں ملاتے ۔ وہ اچھا بھلا 36 سالہ جوان آدمی بوڑھا لگنے لگا ہے ۔ اب کئی مہینے گُزرے کہ وہ اپنے بیٹے کو نہیں ملا ۔ اُسکی مُونچھیں بھی ہیں داڑھی بھی رنج سے کانوں کے گرد سفید بالوں کی جھالر بن گئی ہے
مجھے اس طرح لگتا ہے جیسے مردوں سے بدلہ لیا جا رہا ہو جتنی دیر تک عورتوں کے حقوق سلب ہوتے رہے کم از کم مردوں کے بھی ہونے چاہئیں اور فلاحی ادارے اس پر آرام فرما رہے ہیں ۔
مرد اور عورت کے معاملے میںَ یہ غیر محفوظ توازن کسی نا کسی سطح پر ہمارے معاشرے میں بھی رائج ہو چکا ہے جسکو ترتیب دینے اور پالیسی میں لانے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے بہت ساری شادیاں فقط حق مہر کے لئیے ہوتی ہیں جو کہ ہمارے ہاں بیمار اور نفسیاتی مرد بنانے والی فیکٹریاں ثابت ہو رہی ہیں ۔ ان مسائل کو قومی سطح پر اُجاگر کرنا شوشل ایکٹویسٹ کی ذمہ داری ہے ورنہ یہ مرض معاشرے میں نیا ہنگامہ برپا کر دے گا جسکے نتائج بہت سنگین ہوں گے ۔
یہ نا ہو بہت سارے موُنچھ رکھے مرد یہ کہنے لگیں“مُونچھ وی ہے پھر بھی ہم کچھ نہیں