خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

 

 تحریر: نبیل اینھتونی

انسانی معاشروں کا حُسن افراد میں تہذیب اور اخلاقی اقدار کے زندہ رہنے پر منحصر ہے ۔ جس قوم کے اجتماعی رویے میںَ بے چارگی کا عنصر در آئے اور وہ اس بے چارگی کو اپنا سہارا بنانے لگے ایسی قوم اس سیارہ پر انسانی شرف سے آشنا نہیں ہو سکتی ۔

انسانی معاشرے کی اکائی فرد ہے جب ایک فرد انسانی شرف سے واقف ہوتا ہے تو وہ معاشرے میںَ موجود دوسرے افراد کی قدر اور پہچان سے واقف ہوتا ہے ۔

برصغیر کی دو الگ ریاستوں میں تقسیم نے اپنے سمیت کئی دیگر ابواب کو جنم دیا ہے لکیر جس نے خطے کو ہندوستان اور پاکستان قرار دیا وہ لکیر دراصل بے شمار انسانی گردنوں پر تلواروں سے بھی لگی پھر ایک ہی دھرتی دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ۔

جب کوئی قلم کار مقرر یا داستاں گو بابِ تقسیم کی طرف اپنا فہم لگاتا ہے تو وہ اِس کے بنیادی پہلوؤں کو ضروری دیکھتا ہے ۔ تاریخ کے صحفات سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اور قائداعظم نے پاکستان نہیں بنایا پاکستان کو بنانے میں اِنہوں سرگرم حکمت عملی سر انجام دی ہے پاکستان زمینی پاکستانیوں نے بنایا ہے قائداعظم ، علامہ اقبال اور اُس وقت کی باقی لیڈرشپ یہاں رہنے والی دوسری بڑی قوم مسلمان کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ یہاں غلام ہیں ۔ آپکی عزت نفس یہاں غلام ہے ۔ آپ مسلمانوں کے نظریات رہن سہن مختلف ہیں اور یقین آنے پر پاکستان بن گیا ۔

انسان فطری طور پر آزاد ہے لیکن غلامی کیا ہے۔؟ غلام کون ہے ؟

میں سمجھتا ہوں شہرت جو کسی خدا داد صلاحیت کے

نتیجے میںَ اُترے، خلوص جو مخلص رہنے کی تشنگی سے منسوب ہو ،اپنی لاج اور خودی جو اس لئیے ہے کہ انسان ہیں کو پیچھے رکھ کر کوئی ایسا عمل سر انجام دینا جس کے بدلے یہ ساری صفات آپکو کھٹکھٹاتی ہوں لیکن آپ پھر بھی وہ عمل سر انجام دیتے جائیں جس کی توقع آپکی شہرت ، خلوص ، لاج اور خودی نہ کرتی ہو وہ غلامی ہے اور جو فرد اس عمل میںَ ملوث ہو وہ غلام ہے۔

پاکستان کا بننا کچھ اذہان اور لیڈر شپ کی صلاحیتوں کا ہی نتیجہ ہے ۔ اسیری اور سرداری کا تعلق دولت کی انتہا سے ناہی گُزرے ادوار میں تھا اور نہ اب ہے اقوام کی خود مختاری ، قومی سالمیت عوامی یکجہتی اور قومی خودداری کا تعلق یقیناً سروری اور پیشوائی سے ہے جو یقیناً ریاستی اخلاقیات کو پروان چڑھانے میں اہم ہے ۔

پاکستان عصرِ حاضر میںَ انتہائی نازک موڑ سے گُزر رہا ہے ہمارےسیاسی طبقے نے ہمیں قومی یکجہتی ، قومی رویے اور ترقی میں سمت کی بجائے اضطراب دیا ہے ۔ جو اپنے آپکو اصل میںَ اس ملک کے بادشاہ سمجھتے ہیں اُنہوں نے ہماری خودی کو بیچ کر قومی غیرت کو تہس نہس کر کے ہمیں نغمے سنائیں ہیں “ ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں “ ۔

ہمارا کوئی قومی رویے نہیں ہے اور قومی رویے قومی یکجہتی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں قومی یکجہتی ہمیشہ قومی غیرت سے آیا کرتی ہے ۔

ہمارے ساتھ جو سب سے بڑا حادثہ پیش آیا وہ قوم کی محب الوطنی کو کسی خاطر میںَ نہ لانا ہے۔ اداروں میں بیٹھے آفیسرز کا خیال ہے کہ فقط وہ ہی اس ملک کے خیر خواہ ہیں اور عام شہری بے حد عام ہے اُسکا ہونا یا نا ہونا ایک برابر ہے یہ سلوک تو اُس وقت بھی تھا جب ہم پر انگریز قابض تھے اور اکثریت ہندوستانیوں کی ہمیں کیڑے مکوڑے سمجھتی تھی ۔ اشفاق احمد اس بات کو نہایت خوبصورتی میں کہتے تھے “ پاکستان اس لئیے نہیں بنا کہ ہمیں روٹی کپڑا اور مکان مل جائے گا بلکہ یہ ہماری خودی اور عزت نفس کی بخالی کے لئیے بنا ہے ۔ جبکہ آج عزت نفس مجروح کرنے کا رواج زور پکڑ چکا ہے سیاسی ٹولوں آمروں کے ٹولوں نے اس قدر فسطائیت کے ریکارڈ قائم کئیے ہیں جس کی ماضی میںَ مثال نہیں ملتی ۔

آج ہمارے حاکم ہمیں جھانسہ دیتے ہیں روٹی کپڑے اور مکان کا جو ہماری ضرورت نہیں ہے یہ حاکموں کی ضرورت ہے اِنکا گزارا لاکھوں والے سوٹ پہنے بن نہیں ہوتا عام بندھے کے لباس کی ذمہ دادی روٹی کی زمہ داری مکان ذمہ داری اللہ کے پاس ہے ۔

ہماری ضرورت خودداری کی اور عام شہری کی اپنے وطن سے محبت کو اہمیت دینے کی ہے لیکن معاملہ اس کے بر عکس ہے ۔

ہم بڑی طاقتوں کے آگے دستِ سوال ہیں ۔ اور ہم اِسکا کوئی پربندھ بھی نہیں کر رہے اور دن بہ دن قرض میں جکڑے جا رہے ہیں پیسے لئیے ہوئے واپس نہیں کرتے تو بدلے میں اُنہیں ہم کیا دیتے ہیں ہم اپنی غیرت دیتے ہم اُنہیں اجازت دیتے ہیں کو وہ ہمیں غلام سمجھیں اور ہم سے وہی برتاؤ رکھیں ۔

ہمارے حاکم اور سردار فقط ہماری سرحد کے حاکم ہیں یہ ہم پسے لوگوں کے سرور ہیں اِنہوں نے بین الااقوامی سطح پر اس قوم کو بیکاری ثابت کر دکھایا ہے اِنکی سرداری صرف ہم پر چلتی ہے اور کہیں نہیں بیرونی ریاستوں میںَ کشکول چلتا ہے ہمارا ۔

بین الااقوامی سطح پرکشکول سے ہماری سرداری اور قومی غیرت کو دیکھا جاتا ہے ۔ بیرونی طاقتیں کشکول بھر دیتی ہیں لیکن ہمیں غیرت سے خالی کرتے جا رہی ہیں ۔ ہمارے سردار اپنے خزانے بھرتے جا رہے اور ہمیں ایک ایسی اسیری کی طرف دھکیل رہے ہیں جسکا انجام معاشرتی اقدار کی پامالی ، جہموری اضطراب اور خودی کا سودا ہے ۔ سب کے دل میںَ تمنائے سروری ہے لیکن سروری کے سیلقے سے سب نے مُنہ موڑے ہیں اور یہ بھی لکھنا بے جا نہ ہو گا کہ کچھ طاقتیں ہماری جہموریت کے لئیے دھیمک ہیں اور وہ ہمارے ہی ملک میں سچ تو یہ کہ وہ ہمیں غلامی کے قائل لگتے ہیں ۔ سفید چمڑی والوں کے کالے جوتے پالش کرنا ہی کا فری ہے ۔

خودی کی سرفرازی اصل سروری کو جنم دیتی ہے ۔ جس حاکم کے دل میں اپنی ذات اپنی رشتہ داریوں کے فائدے بھر آئیں اُسکی سرداری نے مات کھائی ہے اور اُس حاکم کی رعایا نے مات کھائی ہے ۔

حالات کی سنگینی ہمارے سامنے ہے اور ہم قومی سطح پر بٹّے ہوئے ہیں۔ ہماری پہچان ایک بیکاری قوم کی ہے قومیں کم از کم ان حالات سے آشنا ہی ہو جائے تو حالات سدھارے جا سکتے ہیں ۔ بڑے فیصلے اُن فاصلوں کو کم کر سکتے ہیں جو قومی غیرت اور قوم کے درمیان ہیں ۔

نادرا کے مارچ 2022 کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی 17 اقسام ہیں، جن میں مسیحی آبادی 2642048 نفوس، ہندو 3595256، احمدی 191737، شیڈولڈ کاسٹ 849614 اور دیگر مذاہب 43253 نفوس پر مشتمل ہیں۔جن میں سکھوں کی تعداد 7413۔

اب اگر ہم اقلیتوں کے حوالے سے بالکل زمینی حقائق کو بروئے کار لائیں تو حالات یہ ہیں بہت سارے مسیحی کرسچن ملکوں میںَ جانے کو خواہش رکھتے ہیں اور اسی طرح کے جذبات دیگر اقلیتوں میںَ بھی ہے ۔

نیشنل ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 64 فی صد اس وقت 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ یہ ہمارا سب سے اہم اثاثہ ہیں جن کو بروئے کار لا کر ترقی طرف نکلا جا سکتا ہے اس پر کوئی حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی ۔

ملک برین ڈرین کا بُری طرح شکار لیکن ہماری کام کرنے والے حلقے سیاستدانوں کو اذیتیں دینے کے لئیے سارا سال پلاننگ کرتے ہیں ملک ، خودی ، قومی یکجہت اور سالمیت جائے بھاڑ میںَ ۔ ہمارے ہاں ابھی سیاستدانوں سمیت کچھ خاموش حلقوں کو قومی رویوں پر تعلیم کی انتہائی ضرورت ہے جس کا بندوبست ہمارے دانشوروں نے کرنا ہے جبکہ وہ ساز گار ماحول کی تلاش میں ہیں اور یقناً ساز گار ماحول بھی اُنکی تلاش میں بھی ہو گا۔

اس قوم نے اپنی خودی کو گُم کر دیا ہے اور اُن حاکموں کو تسلیم کیا ہے جنہوں نے اپنی سروری کے لئیے قومی خودی کی بلعی چڑھا دی ہے ۔ سب روپیہ جمع کرنے کی کوشش میں ہیں اور آج کے لئیے نہیں کل کے لئیے وہ کل جو سکندر قلندر انبیاء سب لے کر چلی گئی ۔ ایسی حاکمیت سے فقیری اچھی ہے خدائی صفات جو بندے کو اس لئیے دی گئی کہ وہ فطری طور پر آزاد پیدا ہوا اور آزاد رہے اسیر حاکم کی نشانی یہ ہے کہ وہ اِن صفات کو نظر انداز کر کے کشکول اُٹھا کر بظاہر امیروں کے سامنے اپنے ضمیر کی امیری بیچ آتا ہے ۔

اقبال کا مصرعہ ہے

امیری نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ دولت ہمیں امیر کر دے امیری کا تعلق تو ضمیر سے ہوتا ہے ضمیر کی امیری قائم رہے تو غریبی میں نام پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ افسوس ایک مردِ مجاہد نے یہ الم بلند کیا قومی غیرت ، خوداری اور خود مختاری کا وہ سزائیں جیلیں اور عدالتیں بھگت رہا ہے میں یہی لکھوں گا غلامی کے عادی معاشرے اژدھا بن جاتے ہیں ایسا اژدھا جو کئی آزاد لیڈر نگل جاتا ہے ۔

 

 

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading