تحریر: نبیل انتھونی
انسانی معاشروں کا حُسن افراد کی خوشخالی سے منسوب ہے اور جو معاشرہ سلیقے ،طریقے کی تمیز مہذب منظم اور تہذیب یافتہ اقدار سے دور ہے وہاں خوشخالی آ ہی نہیں سکتی ۔ یہ وجوہات ہی معاشروں میں ترقی کی اوّل ضمانت ہیں اور رہیں گی ۔
ہمارے ریاستی امور چَلانے والے جو گُزر گئے اور جو ہیں یہ سب یا تو ترقی کی خواہش کو اِتنا شدید کر چُکے ہیں کہ دیوانوں کی مانند منصوبے بناتے ہیں اور اُن سے مزید غرق ہو رہے ہیں یا پھر اٹل حقیقت کہ یہ فقط اپنا فائدے دیکھتے ہیں اور قوم جائے بھاڑ میںَ پر شدید قائل ہیں ۔
دہائیاں گُزر گئی ہیں کئی قسم کی ترقی پر اعلیٰ ترین پالیسیاں عوامی عقل کا محور بنیں افسوس اُن پر عمل نہیں ہو سکا اور ہم دن دوگنی رات چوگنی تنزلی کی منزال طے کی ہیں ۔
ہمارے لکھاری ، موٹیوشنلز اسپیکرز کے اسٹیج اور حافظ مولوی مُلاں پادری بھی ہمارے قومی رویے کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔ ہمارے اسکولوں کے داخلے راستوں پر برسوں سے لکھا جا رہا ہے اتحاد
، تنظیم اور ایمان نہ ہمارے اسکول بھی ہمیں متحد نہیں کر سکے قومی یکجہتی نام کی چیز ہی نہیں ۔ جن قوموں کے قومی رویے میں اتحاد اور قومی یکجہتی نہیں ہوتی وہ قومیں جاگیرداروں کا ہانکنے والا اِجڑ ہی ہوتا ہے ۔
پاکستان میں 58 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اوپر والے درجہ کی شرح 20 فصید ہے ۔ ترقی پذیر معاشروں میں غربت بڑھنے کی کچھ بنیادی وجوہات ہوتی ہیں ۔
پُر عزم قیادت کا فقدان
غُربت میں گرے طبقوں کی نشاندہی اور درست اعداد و شمار پر ناقص حکمتِ عملی
ناقص عقل گورننس کا انتخاب
آبادی میں خطرناک حد تک اضافہ
جاگیردارانہ اور مراعات زدہ افراد کا وسائل پر قبضہ اور وسائل کی غیر مُنصفانہ تقسیم ۔
اس میںَ کوئی شک نہیں ہر ملک میں غربت کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں اور اُن کے حل بھی مختلف ہوتے ہیں اوپر جن وجوہات کو ہم نے پڑھا وہ بنیادی وجوہات ہیں
میں آپ کے سامنے ایک نمونہ رکھتا ہوں ۔
چین ہمارا دوست اور اچھا ہمسایہ ملک ہے ۔ چین کا شمار دنیا کی بڑی آبادی والے ممالک میں ہے ، انڈیا، امریکہ اور چین دنیا میںَ بڑی آبادی والے ملک ہیں ۔
موجودہ صدر شی جنگ پنگ سے قبل 2011 ء میں غربت کے خاتمے اور ترقی کے حوالے سے چین نے اپنا پہلا 10سالہ پروگرام مکمل کر لیا تھا اور یوں چین دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ مقاصد 2015 ء سب سے پہلے حاصل کئے۔
2012ء میں شی جنگ پنگ کو صدراتی مقاصد پر فائز کیا گیا تو شی جنگ پنگ نے اپنے ابتدائی اجلاس میں غربت کے خاتمے پر Precise Poverty Alleviation تصور متعارف کروایا ۔ جس کے باعث ہر گھرانے کی غربت پر وجوہات تلاش کرنا تھیں ۔ منظم اور سنجیدگی سے اُن طبقوں کو نشاندہی کی اور اپنے اہداف کی طرف سفر شروع کیا ۔ صدر شی جنگ پنگ نے غربت کے خلاف جنگ میں اپنے اہداف 2030ء تک مکمل کرنا تھا جو انہوں نے 2020ء میں مکمل کر لئیے اور 2021ء میں صدر شی جنگ پنگ بڑے فخر سے میڈیا پر اپنی زبان میں یہ فتح بتا رہے تھے ۔
مجھے تو پاکستانی حکمرانوں کی سنجیدگی پر شکایت ہے ، مجھے ان کے حکمرانی رویے سے شکوہ ہے اور میرا دل کہ میں چوک چوراہوں میں لکھ دوں مجھے حکمرانوں کی سنجیدگی سے شکایت ہے اِن کے حکمرانی رویے سے شکوہ ہے ۔
یہ ہمیں انڈیا کی دشمنی اسرائیلیوں کے فلسطین پر ظُلم اور کشمیر کو شہ رگ کہہ کہہ کر خون گرماتے رہتے ہیں ۔ یہ دستیاب وسائل کو ایک جاگردار طبقے تک محدود رکھتے ہیں ۔ سرمایہ داروں کی اجارہ داری کو تھپکی دیتے ہیں اور غریب غرباء کو اللہ کی رضا کہہ کر راضی رکھتے ہیں ۔
عالمی قرض کے اداروں سے قرض لے کر کچھ خود کھا پی جاتے ہیں کچھ اِن کے چیلے چالے اور بزنس الاونس دیتے ہیں اُن کی شرائط ہی ایسی رکھ دیتے کہ غریب ترین آدمی تک اُسکی رسائی ہی نہیں ہوتی ۔ منظم اور سنجیدہ رویے ہوں تو اِن تمام حالات سے نکلا جا سکتا اِنکا بندوبست کیا جا سکتا ہے ۔
ریڑی پر جو ناشتا لگاتا ہے ، جو جوس بیچتا ہے اور جو سبزی بیچتا ہے جو چھوٹی صعنت رکھتا ہے چھوٹا کسان ہے یہ سب بھی ہر گورنمنٹ کی ذمہ داری ہیں اور یہ چلتے پُرزے ہیں اُن کو بروئے کار لا کر ایک دوڑ لگائی جا سکتی ممکن ہے ہم کسی ترقی کی طرف نکل جائیں ۔
یہ بھی ترقی کے چیمپئن بن سکتے ہیں اگر ترقی کے دیوانے ذرا ہوش کے ناخن لیں تو اِن کو با ترتیب اور ٹھیک اعداد و شمار میں لا کر سہولیات فراہم کرنے کی طرف لائیں جو وسائل دستیاب ہیں اُن میں اضافہ کریں ناکہ اِن سے چھین کر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے پیٹ کی نظر کیے جائیں ۔ اِنکی بھی گزارہ الائونس تک رسائی ہو۔ بزنس الاونس تک رسائی ہو ۔ جو ریڑی چلاتا اُس جفا کش سے چلتا ہے پاکستان لیکن گورنمنٹ کی سطح پر نالائقی کی انتہا ہے انتہا ۔
ہر الیکشن سے پہلے سیاستدانوں کے منشور نہایت انقلابی ہوتے ہیں لیکن جو حکمران بنتا ہے اُنکے منشور اسٹبلی ہو جاتے ہیں ۔
چند غربت کے خاتمے پر اقداماتی نمونے !
چین جب غربت کے خاتمے پر جنگ لڑ رہا رہا تھا تو اُنھوں نے کئی اقدامات کیے اِن اقدامات میںَ ایک ری لوکیشن تھا ۔
ری لوکیشن میں انھوں نے جو دور دیہاتی لوگ تھے جن کو ماحولیاتی شدت کا بہت سامنا تھا اُن میںَ چرواہے اور لکڑہارے زیادہ تھے اُنکو جنگلات اور ماحولیاتی حفاظت پر نوکریاں دیں۔
نوجوان جو سکولوں سے باہر تھے اُن کو ٹیکنکل ایجوکشن کی طرف راغب کیا اور والدین کو پابند بنایا ۔
ہمارے ہاں ایسی کئی زمینیں ہیں جو آباد کی جا سکتی ہیں کھیتی باڑی کے لیے لیکن مجال ہے گورنمنٹ دیہاتیوں کو اِس طرف لے کر آئے نہ نہ ہم ایسے ہی ترقی کر جائیں گے ۔
بھوٹان اپنا ترقی کا پیمانہ جی ڈی کو سامنے رکھ کر نہیں دیکھتا وہ دیکھتا ہمارے شہری کتنے فصید خوشحال ہیں ۔ معاشروں میں ترقی اور خوشخالی کی طرف کامیابی رویوں سے ملتی ہے ۔ بس اچھی روایات کی ہماری حکومتوں نے پابندی نہیں کی اسی وجہ ہمارا کوئی قومی رویہ نہیں ہے جب تک وہ نہیں ہو گا غریب ہمیشہ غریب تر ہوتا جائے گا اور جاگیر دار امیر تر ۔
چند تجویز ہیں
وسائل کی مُنصفانہ تقسیم لازم بنائیں
چھوٹے ترین کام کرنے والوں کو سہارا فراہم کریں اور اُنھیں تھپکی دیں
ڈیٹا اکٹھا کریں اور تفصیلی خاکے بنائیں
بر وقت امداد کی فراہمی یقینی بنائیں
ورنہ برین ڈرین کا شکار ملک آہستہ آہستہ احمقوں کا کھیت بن جاتا ہے
نمونہ :
اگر ہم چین کی ترقی کا عمومی جائزہ لیں کہ یہ انقلاب کیسے ظہورپذیر ہوا تو اس کا جواب ان پانچ ڈیز (5Ds) میں ہے جو چین میں غربت کے خاتمے کا مجب بنے۔
پہلے ”D” پرعزم قیادت (Determine leadership) کا ہے۔ دوسرا ”D” تفصیلی خاکے ( Detailed Blueprint) کو بیان کرتا ہے۔ تیسرا ”D” ترقی پر مبنی اپروچ (Development Oriented) کوظاہر کرتا ہے۔ چوتھا ”D”اعداد وشمار پر مبنی گورنینس (Databased Governance) کے بارے میں ہے۔ پانچواں ”D” مقامی ڈیلیوری (Decentralize Delivery) کے اصول کو واضح کرتا ہے۔ ایک سٹڈی کے مطابق چین دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے قومی بجٹ کا 50فیصدسے زائد مقامی حکومتوں کے ذریعے سے خرچ کرتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لئے بھی چین نے مقامی ڈیلیوری کا اصول اپنایا اور غریب آبادی تک وسائل پہنچانے اور ان کی مالی مدد کے لیے مقامی حکومتوں کے ذریعے کوششیں کی گئیں جو کہ کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔