تحریر: نبیلہ فیروز بھٹی
رانی پور کی حویلی میں معصوم فاطمہ کا ریپ ہوا، ڈاکٹروں کی ملی بھگت سے حقائق مسخ کیے گئے اور بچی کو دفنا دیا گیا۔ یہ بات کسی طرح حویلی کی دیواروں سے باہر نکل آئی اور سماجی میڈیا سے ہوتی ہوئی مرکزی میڈیا تک پہنچ گئی۔ ایسا احتجاج ہوا کہ عدالتی حکم پر فاطمہ کی قبر کشائی کے احکامات جاری کیے گئے۔ ڈی جی ہیلتھ سندھ کی جانب سے پوسٹ مارٹم کے لئے بورڈ تشکیل دیا گیا۔ میڈیکل بورڈ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دس سالہ فاطمہ پر جسمانی تشدد اور جسم کے دو طرفہ مخصوص حصوں سے جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ جس انسان نے بھی اس کیس کے بارے میں جانا اس کا دل خون کے آنسو رویا ہے۔ فاطمہ پیروں کے گھر میں تھی جہاں ایک معاملہ عقیدت کا بھی تھا۔
گھریلو بچہ مزدوری کا پھیلاؤ
فاطمہ پر تشدد کے واقعہ نے ملک بھر میں غم و غصے اور تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ لیکن یہ واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ نہیں ہے۔ ایسا ظلم آئے دن ہوتا رہتا ہے۔ فاطمہ جے سے ظلم کا شکار وہ بچیاں بھی ہوتی ہیں جن کے والدین انھیں پیسے کی خاطر دوسروں کے گھروں میں بچہ مزدور کے طور پر رکھوا دیتے ہیں۔ چودہ سالہ رضوانہ جس کا کیس سول جج عاصم حفیظ کے گھر سے پچھلے مہینے کے آخر میں منظرعام پر آیا، وہ آج بھی جنرل ہسپتال لاہور میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ فروری میں کراچی میں گیارہ سالہ گھریلو ملازم بچے رفیق قبول کو مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
2022 میں بہاولپور کے رہائشی نے دس سالہ کامران کو اتنا پیٹا کہ وہ ہسپتال جا کر چل بسا۔ 2021 میں چک جھمرہ میں چودہ سالہ نسرین پر اس قدر تشدد ہوا کہ اس کی چیخیں سن کر سڑک سے گزرتے ایک راہگیر نے پولیس کو اطلاع دی۔ 2020 راولپنڈی میں سات سالہ بچی گھریلو ملازمہ زہرہ شاہ کو پرندے کا پنجرہ کھولنے کی پاداش میں مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ 2019 میں سولہ سالہ عظمیٰ کی لاش لاہور کے ایک گندے نالے سے ملی، گھریلو ملازمہ عظمیٰ کو اس کے آجروں نے تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کر دیا۔ 2018 میں رحیم یار خان کی رہائشی نے تیرہ سالہ گھریلو ملازمہ بانو کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا جس سے اس کی کمر کی ہڈی ٹوٹ گئی اور وہ چھہ ماہ میں چل بسی۔ 2017 میں ملتان کی دس سالہ گھریلو ملازمہ کو مار مار کر اس کے جسم پر نیل ڈال دیے گئے اور اس کی جلد جگہ جگہ سے اکھڑ گئی۔ 2016 میں گھریلو ملازمہ طیبہ کو اسلام آباد میں جج راجہ خرم علی خاں کے گھر سے شدید زخمی حالت میں بچایا گیا۔ 2010 میں لاہور میں گھریلو ملازمہ شازیہ مسیح کے المناک اور بہیمانہ قتل کو کوئی بھی نہیں بھول سکتا۔
جولائی 2022 میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک گھر میں بچہ مزدوری کروائی جاتی ہے، جن میں زیادہ تر دس سے چودہ سال کی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ جنوری 2020 میں تین سول سوسائٹی تنظیموں، ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن (HWA) ، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (PILAR) اور انسٹی ٹیوٹ فار سوشل جسٹس (ISJ) کی شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران میڈیا میں گھریلو ملازم بچوں کے ساتھ بدسلوکی، جنسی زیادتی اور قتل کے 140 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس دس سالہ عرصے میں 96 بچوں کو ریپ کیا گیا اور 44 کو قتل کر دیا گیا۔ رپورٹ ہونے والے 79 فیصد کیسز پنجاب، 14 فیصد سندھ، 6 فیصد اسلام آباد اور ایک فیصد خیبر پختونخوا سے ہیں۔ جنوری 2019 سے فروری 2021 تک ویمن ان سٹرگل فار ایمپاور منٹ (WISE) کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں گھریلو ملازمین بچوں پر تشدد کے 74 واقعات رپورٹ ہوئے۔ تمام واقعات میں متاثرین سات سے سولہ سال کی بچیاں ہیں۔
گھریلو بچہ مزدوری ملک میں عام ہے جس کے تحت بچوں کا خاموشی سے چار دیواری کے اندر استحصال کیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے زیادہ تر کیسز میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے بلکہ پوشیدہ رکھے جاتے ہیں۔ یہ کئی وجوہات کی بابت ہے بشمول ہمارے معاشرے نے نہ صرف بچوں کی ملازمت کو معمول کی بات سمجھ لیا ہے بلکہ ان کے ساتھ بدسلوکی کو بھی جو چاہے گھروں میں ہو، سکولوں میں یا کام کرنے کی جگہوں میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پھر جنسی زیادتی کی صورت میں تو اسے عزت کا معاملہ سمجھ کر بھی چھپایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی معیارات
گھریلو بچہ مزدوری سے نمٹنے اور بچوں کے تحفظ پر پیش رفت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان ملکی قوانین کو بین الاقوامی قوانین اور ان پر کیے گئے وعدوں سے ہم آہنگ کرے۔ بچوں کے تحفظ کو اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے معاہدے (UNCRC) کے آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 32 میں وضاحت سے درج کیا گیا ہے جس کی پاکستان نے 33 سال پہلے توثیق کی تھی۔ آرٹیکل 19 میں درج ہے، ”فریق ممالک بچے کو ہر قسم کے جسمانی یا ذہنی تشدد، چوٹ یا زیادتی، غفلت یا لاپرواہی کے برتاؤ، بدسلوکی یا استحصال بشمول جنسی زیادتی سے بچاؤ کے لئے مناسب قانونی، انتظامی، سماجی اور تعلیمی اقدامات کریں گے“ ۔ آرٹیکل 32 بچے کو مزید تحفظ فراہم کرتے ہوئے کسی بھی اے سے کام کو ممنوع قرار دیتا ہے جو ممکنہ طور پر خطرناک ہو یا بچے کی تعلیم میں رکاوٹ ہو، یا بچے کی صحت یا جسمانی، ذہنی، روحانی، اخلاقی یا سماجی ترقی کے لئے نقصان دہ ہو۔
مزید برآں، 2001 میں پاکستان نے آئی ایل او کے بچہ مزدوری کی بد ترین اشکال کے میثاق C 182۔ کی توثیق کی جو بچہ مزدوری کی بد ترین شکلوں کو روکنے اور انھیں ختم کرنے کے لئے فوری اور موثر اقدامات کی سفارش کرتا ہے۔ اس کنونشن میں گھریلو بچہ مزدوری کو جدید غلامی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے جو کہ مشقت کی بد ترین شکلوں میں آتی ہے۔ 2030 تک اس کا خاتمہ پائے دار ترقی کے اہداف کے ہدف آٹھ (Target 8.7) کا حصہ ہے جس میں پاکستان ایک فریق ہے۔ آئی ایل او نے مشقت کی بدترین اقسام کی مزید وضاحت اس طرح کی ہے کہ جو اپنی نوعیت یا حالات سے بچوں کی صحت، تحفظ یا اخلاقیات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کنونشن کا ایک فریق ہونے کے باوجود، پاکستان نے قومی قانون میں گھریلو بچہ مزدوری کو مشقت کی بد ترین اشکال میں تسلیم نہیں کیا۔
ملکی قوانین
آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 A کے مطابق ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ اس کے باوجود ورلڈ بے نک کی ایک تحقیق کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے تقریباً 23 ملین پاکستانی بچے سکول نہیں جاتے۔ افسوس کہ یہ بچے زیادہ تر بچہ مزدوری میں ملوث ہیں۔
اگرچہ آئین کا آرٹیکل 11 غلامی اور جبری مشقت سے منع کرتا ہے، پاکستان میں گھریلو بچہ مزدوری عام ہے جو غلامی کی بدترین شکل ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سنجیدگی کے فقدان کی وجہ سے گھریلو بچہ مزدوری کے معاملے پر قانون ساز اسمبلیوں میں توجہ نہیں دی گئی۔ یہ بھی قابل تحقیق بات ہے کہ کتنے قانون سازوں کے گھروں میں یہ ظالمانہ مزدوری لی جاتی ہے۔ گھریلو بچہ مزدوری کو سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے Employment of Children Act، 1991 کے تحت ممنوعہ پیشوں کے شیڈول میں شامل کیا جانا چاہیے۔
پنجاب میں Punjab Restriction on Employment of Children Act، 2016 کے تحت بچوں کے لئے خطرناک ملازمتوں کی ایک فہرست موجود ہے۔ تاہم گھریلو بچہ مزدوری کام کی ان بد ترین شکلوں میں شامل نہیں۔ Child Rights Movementکے مطابق گزشتہ 15 سالوں میں تقریباً 70 بچے اپنے آجروں کے ہاتھوں گھریلو بچہ مزدوری میں مارے گئے جبکہ کسی بھی اور خطرناک صنعت میں بچوں کی اتنی اموات نہیں ہوئیں۔ لہٰذا بچوں کے حقوق کے کارکنوں کی یہ سفارش کہ گھریلو بچہ مزدوری کو خطرناک پے شوں کی فہرست میں شامل کیا جائے شواہد پر مبنی ہے۔
The Punjab Domestic Workers Act، 2019 کا سیکشن 3 بیان کرتا ہے کہ ”15 سال سے کم عمر کسی بھی بچے کو کسی بھی صلاحیت میں گھر میں مزدوری کرنے کی اجازت نہیں ہوگی“ ۔ تاہم یہ 15 سے 18 سال کے بچوں کو گھروں میں مزدوری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 15 سال سے زیادہ عمر کے بچوں خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ گھریلو بچہ مزدوری میں بڑے پیمانے پر زیادتی ہوتی ہے۔ حکومت کو غلامی اور بچہ مزدوری کی بد ترین قسم کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس پر مکمل پابندی لگنی چاہیے جیسا کہ ہمارے آئین میں متصور ہے۔
خیبر پختونخوا کا The Prohibition of Employment of Children Act، 2015 بیان کرتا ہے کہ کسی بھی بچے ( 14 سال سے کم) کو کسی establishment میں بھی ملازمت یا کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسی طرح The Sindh Prohibition of Employment of Children Act، 2017 کہتا ہے کہ ”کسی بھی بچے کو کسی establishment میں ملازمت یا کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی“ ۔ بچہ مزدوری سے متعلق مختلف وفاقی اور صوبائی قوانین کو دیکھیں تو عمر کی حد آئین کے آرٹیکل 25 A سے اکثر متصادم ہے۔
سفارشات
گھریلو بچہ مزدوری صرف بچہ مزدوری کا مس 3 ⁄ 4 لہ نہیں ہے بلکہ یہ بچوں کے تحفظ کے حق کی خلاف ورزی ہے ; بچے بد سلوکی اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں ;جب وہ گھریلو ملازم کے طور پر کام کرتے ہیں تو انھیں نظرانداز کیا جاتا ہے اور ان کا استحصال ہوتا ہے۔ رے است کو پاکستان کے بچوں کے تحفظ سے متعلق شکایت درج کروانے، ان کے کیس کے انتظامات اور تحفظ کے طریقہ کار کو بہتر بنانے کے لئے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن پالیسیز کا نفاذ ضروری ہے۔ بدقسمتی سے کسی بھی صوبے میں چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں بنائی گئی ہے جن کا اجرا سول سوسائٹی کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ بین المحکمہ جاتی روابط کی ضرورت ہے ؛ تعلیم، صحت، سماجی بہبود اور لیبر کے شعبوں اور چائلڈ پروٹیکشن بیوروز اور اتھاریٹیز کو آپس میں ہم آہنگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
نہ صرف موجودہ قوانین نا کافی ہیں بلکہ ان پر عمل درآمد کا بھی فقدان ہے۔ گھریلو بچہ مزدوری کی حوصلہ شکنی کے لئے مضبوط قانون سازی کی ضرورت ہے جس میں قواعد، طریقہ کار، بجٹ مختص کرنا، جرائم اور سزاؤں کا واضح تعین ہو۔ قانون بنانے کا عمل مشاورتی ہونا چاہیے اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی سفارشات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یہ شراکتی ہونا چاہیے اور اس میں تبدیلی کے ایجنٹ کے طور پر گھریلو ملازمین بچوں کی تجاویز کی بھی شمولیت ہونی چاہیے۔ گھریلو بچہ مزدوری کو جرم قرار دیے بغیر صورتحال میں بہتری نہیں آ سکتی۔
گھریلو بچہ مزدوری پر پابندی لگانے سے کام پر رکھنے والوں اور والدین کو یہ احساس ہو گا کہ یہ قانون کے خلاف ہے اور قانونی نتائج بھگتنے کے ڈر سے وہ اس میں شامل نہیں ہوں گے۔ حکام خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر سکیں گے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے ایک وسیع آگاہی مہم عوام کو معصوم بچوں کو ملازمت دے نے اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے نتائج کے بارے میں آگاہ کر کے گھریلو بچہ مزدوری کو کم کرنے میں مدد دے گی۔
غربت کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے بالغ افراد کی کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جائے اور اس کا حصول یقینی بنایا جائے۔ سماجی تحفظ کے پروگراموں کو بچوں کی تعلیم سے منسلک کیا جائے۔ آئین کے آرٹیکل 25 A پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ بچپن کی شادیوں کے خلاف اور خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں بھرپور مہم چلائی جائے۔
جب ہم فاطمہ اور رضوانہ کے لئے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بچوں کے حقوق سے ہمارے عمومی انکار نے ان کے ساتھ زیادتی کے خطرے میں اضافہ کیا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لئے سماجی قبولیت اور حساسیت یقینی طور پر درکار ہے۔ پاکستان کے بچوں کا تحفظ صرف رے است کی ذمہ داری نہیں ہے۔ در حقیقت یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اس ملک کے بچے بغیر کسی استثنیٰ کے اپنے تمام حقوق سے لطف اندوز ہو سکیں۔ بچوں کی ہمہ گیر نشوونما اور ترقی کے لئے بچہ مزدوری کی تمام اقسام کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔