تحریر: نعیم تبسم
میرے والد، مرحوم فقیرالدین، نے صوبائی اسمبلی کا پہلا انتخاب اُس نظام کے تحت لڑا جس نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کو اپنی آواز خود بلند کرنے کا حق دیا تھا۔ 1985 سے 1999 تک، پاکستان میں اقلیتوں کے لیے الگ اور آزاد انتخابی نظام رائج تھا۔ یہ نظام بے عیب تو نہیں تھا، لیکن اس کی بنیاد ایک خالص جمہوری اصول پر رکھی گئی تھی — کہ اقلیتی برادریوں کے نمائندے ان کے اپنے ووٹوں سے منتخب ہوں، نہ کہ کسی سیاسی جماعت کے ذریعے نامزد۔
میرے والد نے دو بار صوبائی اسمبلی کی نشست اقلیتی ووٹوں کے ذریعے حاصل کی — ایک شفاف، جواب دہ اور اعتماد پر مبنی مینڈیٹ، جو عوام کی مرضی سے آیا تھا۔
آج وہ نظام محض ایک یاد بن کر رہ گیا ہے۔ 2023 کی مردم شماری کے مطابق، پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں کی آبادی میں مسیحی تقریباً 1.37 فیصد، ہندو تقریباً 1.61 فیصد اور سکھ برادری 0.01 فیصد سے بھی کم ہیں۔ اگرچہ اقلیتی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ یہ اعداد و شمار ان کی اصل آبادی سے کم ہیں، لیکن یہی پاکستان بیورو آف اسٹیٹِسٹکس کے مطابق تازہ ترین سرکاری تناسب ہیں۔
لیکن آبادی میں اضافے کے باوجود، اقلیتوں کے لیے مخصوص سیاسی نشستیں کئی دہائیوں سے جوں کی توں ہیں۔
اس وقت قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے صرف 10 نشستیں مختص ہیں، جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی طور پر 18 نشستیں — پنجاب میں 8، سندھ میں 4، خیبر پختونخوا میں 4 اور بلوچستان میں صرف 2۔ سینیٹ میں اقلیتوں کے لیے صرف 4 نشستیں ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ تو اقلیتوں کی آبادی کے لحاظ سے مناسب ہیں، اور نہ ہی ان کی سیاسی نمائندگی کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔
اصل مسئلہ صرف نشستوں کی تعداد کا نہیں بلکہ نمائندگی کے نظام کا ہے۔ موجودہ نظام میں اقلیتی نمائندے سیاسی جماعتوں کے ذریعے منتخب نہیں بلکہ نامزد کیے جاتے ہیں۔ وہ اپنے عوام کے نہیں بلکہ اپنی پارٹی کی قیادت کے جواب دہ ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اکثر اپنی برادری کے حقیقی مسائل پر لب کشائی نہیں کرتے۔
اس کے برعکس، 1985 سے 1999 تک کے آزاد انتخابی نظام میں نمائندے براہِ راست اقلیتوں کے ووٹوں سے منتخب ہوتے تھے۔ وہ حقیقی برادری کے رہنما تھے، نہ کہ سیاسی جماعتوں کے تابع۔ یہی وہ نمائندگی ہے جو آج پاکستان کی اقلیتوں سے چھین لی گئی ہے — وہ نمائندگی جو عوام کے دلوں سے پیدا ہوتی ہے، پارٹی کے دفتر سے نہیں۔
جب نمائندے عوامی ووٹ کے بجائے سیاسی مفاہمتوں سے اسمبلیوں میں پہنچیں تو حقیقی قیادت دم توڑ دیتی ہے۔ نشستیں خرید و فروخت کا ذریعہ بن جاتی ہیں، اور برادری کی سیاسی طاقت بے معنی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اقلیتیں سیاسی طور پر غیر متعلق اور آواز سے محروم رہ جاتی ہیں — اور اس خاموشی کا فائدہ صرف وہی اٹھاتے ہیں جو اقلیتوں کی آواز دبانا چاہتے ہیں۔
یہ صورتحال اب بدلنی چاہیے۔
2023 کی مردم شماری کے تناظر میں، اقلیتی نمائندگی میں درج ذیل اضافہ ہونا ضروری ہے:
قومی اسمبلی: 10 سے بڑھا کر کم از کم 20 نشستیں
پنجاب اسمبلی: 8 سے بڑھا کر 16 نشستیں
سندھ اسمبلی: 4 سے بڑھا کر 6 نشستیں
خیبر پختونخوا اسمبلی: 4 نشستیں برقرار، لیکن براہِ راست ووٹنگ کے ذریعے
بلوچستان اسمبلی: 2 سے بڑھا کر 3 نشستیں
گلگت بلتستان اسمبلی: کم از کم 2 نشستیں
سینیٹ: 4 سے بڑھا کر 8 نشستیں (ہر صوبے سے 2)
یہ اضافہ، آزاد انتخابی نظام کی بحالی کے ساتھ، اقلیتوں کو نہ صرف منصفانہ نمائندگی دے گا بلکہ حقیقی سیاسی اختیار بھی۔ ایسے نمائندے اسمبلیوں میں جائیں گے جو اپنی برادری کے سامنے جواب دہ ہوں گے، اور ان کے مسائل پر بے خوفی سے آواز اٹھا سکیں گے۔
پاکستان کی اقلیتیں خیرات نہیں مانگ رہیں — وہ برابری اور انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ جب تک انہیں اپنے نمائندے خود چننے کا حق نہیں ملے گا، وہ سیاسی طور پر کمزور اور غیر مؤثر ہی رہیں گی۔
آزاد انتخابی نظام کی بحالی کوئی پرانی یاد نہیں — یہ پاکستان کے جمہوری مستقبل کی ضرورت ہے۔
اقلیتوں کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا حق دینا جمہوریت کی اصل روح ہے۔ اگر یہ حق نہ دیا گیا تو ہم اپنی تقدیر ان کے ہاتھوں میں دے رہے ہیں جو ہمارے لیے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لیے فیصلے کرتے ہیں۔
اگر پاکستان واقعی ایک جمہوری ریاست بننا چاہتا ہے، تو اسے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہر برادری، چاہے کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو، اپنی آواز اور اپنی قیادت خود منتخب کر سکے۔
یہی وہ روشنی ہے جو اندھیری سرنگ کے آخر میں دکھائی دیتی ہے — اور اس روشنی کا آغاز اقلیتوں کے لیے آزاد انتخابات کی بحالی سے ہوتا ہے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔