نیوز ڈیسک
لاہور: انتخابات کے حوالے سے جاری کردہ مہم “میں بھی پاکستان ہوں” کے تحت ادارہ برائے سماجی انصاف اور اقلیتی فورم پاکستان کے اشتراک سے سیمینار بعنوان “انتخابات میں اقلیتوں کی موثر شمولیت “کا انعقاد لاہورمیں ہوا جس میں پیٹر جیکب ، ضیا الدین انصاری امیر جماعت اسلامی لاہور، طارق جاوید طارق پاکستان مسلم لیگ ن ، اور حبقوق گل تحریک انصاف نےخطاب کیا۔ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنی سیاسی جماعتوں کا موقف پیش کیا اوراقلیتوں کے مسا ئل کے حل کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر طیبہ رفیق اورناصر ولیم نے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کا جائزہ اور مہم کا تعارف پیش کیا ۔ جبکہ یاسر طالب نے نظامت کی۔
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈا ئریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ سخت گیر انقلاب ملکوں میں موجود اداروں اور سیاسی نظام کو کمزور کرتے ہیں لہذا اصلاحات کے ذریعے جوابدہی اور جمہوری نظام کی مضبوطی ممکن ہے۔انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں سے منسلک عوامی نمائندوں کو کسی معاملہ کے حوالے سے قانون سازی متعارف کروانے کے لیے عوامی رائے اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے لہذا عوام کا طرز فکر اورطرز سیاست میں بھی بہتری ہونی چا ہیے تاکہ عوام سیاسی نمائندوں کی کارگردگی پر نظر رکھیں اور اُنھیں مسا ئل کے حل کےلیے اقدامات اٹھانے پر قا ئل کریں۔
حبقوق گل پاکستان تحریک انصاف نے بتایا کہ میں بھی پاکستان ہوں مہم کے مطالبات اقلیتوں کے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں صوبائی اسمبلی کا حصہ بن کر اگر اپوزیشن کا حصہ بھی ہوا تو میں ضرور قانون سازی کو عملی شکل دینے میں اپنا کردارادا کروں گا۔
طارق جاوید طارق پاکستان مسلم لیگ ن کہ اگرچہ پارٹی کی سیاست میں اقلیتوں کا آواز کم سنی جاتی ہے مگر ایسے میں اہم ہے کہ ہم اکثریتی نمائندوں کے ذریعے بھی اقلیتوں کے مطالبات کو پارلیمنٹ یا سیاسی فورمز تک لیکر جائیں کیونکہ موجودہ ایوانوں میں اقلیتوں کے آواز اکثریت کے بغیر غیر موثر ہے۔
ضیاالدین انصاری جماعت اسلامی نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنے منشور میں اقلیتی حقوق کی فراہمی کے بارے میں واضح موقف دے چکی ہے مگر میرے خیال میں لکھی باتوں پر جب تک عملدرآمد نہ ہو وہ غیر موثر رہیں گی پھر چاہے وہ آئین میں لکھی ہوں یا ہمارے منشور میں۔ اس لیے ہمیں معاشرے سمیت حکومتوں میں رکاوٹی عناصر کی نشاندہی کرنی چاہیے اور مذہبی تقسیم کو ختم کرکے پاکستانیوں کو قریب لانے کے لئے کام کرنا چاہیے۔
طیبہ رفیق نے اقلیتوں کے مسائل کے حل کے حوالے سے پانچ نکاتی مطالبات پیش کیے گیے ، جو کہ کم عمری کی شادی اورجبری تبدیلی مذہب کی روک تھام ، ۱۹ جون ۲۰۱۴ کو جاری کردہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد ، دستور پاکستان کے آرٹیکل 22الف کی روح سے مذہبی تعلیم کو لازمی مضامین سے منہا کرنا ، اقلیتوں کے حقوق کے لیے کمیشن کا قیام، قائد اعظم کے گیارہ اگست ۱۹۴۷کے خطاب کو نصاب اوردستور پاکستان میں شامل کرنا ، سے متعلق ہیں۔
ناصر ولیم نے کہا کہ ان مطالبات کی بنیاد ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیق” وفاوں کا تقاضاہے ” جس میں گزشتہ تین حکومتی ادوار میں سیاسی جماعتوں کے وعدوں اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ گزشتہ 3 حکومتی ادوار میں سیاسی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق ایک تہائی وعدے مشترک ہونے کے باوجود بھی وفا نہ ہوئے۔
انتخابات کے حوالے سے جاری مہم کے تحت مطالبات پر مبنی650 بینرز گلیوں میں اویزاں کیے گئے ہیں، اور پاکستان بھر میں کمیونٹی کی سطح پر پچاس کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا گیا۔ انتخابی امیدواروں کے ساتھ تیس میٹنگز اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ دس میٹنگز کی گئیں، جبکہ میرپور خاص اور کوئٹہ میں دو عوامی اسمبلیوں اور پنجاب اور سندھ میں پانچ ضلعی سطح کے سیمینارز کا انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف جماعتوں کے سیاستدانوں نے شرکت کی اور مطالبات کو متعلقہ منشور میں شامل کرنے اور مسائل کے حل کے لیے مثبت اقدامات اٹھا نے کاعہد کیا ۔