تحریر۔عوبید بھٹی
اس مملکت پاکستان میں آپ کا تعلق کسی بھی مذہب،ذات یا عقیدے سے ہو مملکت کا اِس سے کوئی سروکار نہیں۔(بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح)۱۱۔اگست1947
اگر آپ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پیغام کو بغور ملاحظہ فرمائیں تو اس میں اقلیتوں کو براب کے حقوق وتحفظ کی ضمانت دی گئی ہے تاریخ بتاتی ہے قیام پاکستان کے وقت پنجاب کی تقسیم میں رکاوٹ تھی جس میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پاس 88ووٹ تھے اور کانگریس کے پاس بھی 88 ووٹ تھے۔کالی دل کے رہنماٗ ماسٹر تارا سنگھ پنجاب اسمبلی کی سیڑھیوں پر کرپان لہرا کہہ رہے تھا جو مانگے پاکستان اس کو ملے قبرستان، جس کا جواب ایس پی سنگھا صاحب نے دیتے ہوئے کہا تھا، پاکستان بنائیں گے سینے پہ گولی کھائیں گے۔اور اقلیت کے تین ووٹ آل انڈیا مسلم لیگ کے حق میں دے کر پنجاب کی تقسیم کو آسان کیا۔(ٹوٹل 91 ووٹ آل انڈیا مسلم لیگ کو ملے۔) اور یوں تین ووٹوں کی برتری سے تقیسم آسان ہوئی۔ماسٹر تارا سنگھ کو جواب دینے میں اکثریت کا کوئی کردار نہیں تھا۔اور مسیحیوں نے عقیدہِ ابراہیمی کو مدِنظر رکھتے ہوے اکثریت کا سا تھ دیا۔
پاکستان میں بسنے والی اقلیتی برادری خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار اور ماننے والے ہیں تو بھی ان کا ملکی تعمیر و ترقی میں نمایاں اور باوقار کردار رہا ہے خاص طور پر تعلیم اور صحت، کھیل،سول وعسکری اداروں کے شعبوں میں مسیحیوں کا بھرپور کردار کسی سے پوشیدہ نہیں۔
اقلیتوں کی آزادیِ حقوُق صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ اور کچھ نہیں۔۔
گزشتہ تین دہائیوں سے مسیحیوں کے ساتھ بہت تعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے جسکی وجہ بہت سے خاندان اس ظلم وبربریت کا بری طرح شکار ہوئے ہیں۔ان گنت واقعات رونما ہوئے جن میں نمایاں نعت امر کیس، بشپ جان جوزف شہید،شانتی نگر، کرسچن کالونی کوریاں گوجرہسانحہ جوزف کالونی، سانحہ کوٹ رادھا کشن شمع شہزاد، سانحہ جڑانوالہ،سانحہ سرگودھا پاکستانی مسیحیوں کے دلوں پر نقش ہیں۔اور اس طرح کے متواتر واقعات رونما ہونا ریاست کے لیے سوچنے کا مقام ہے۔پاکستانی مسیحیوں کو سرکاری اداروں میں گنتی کی نمایندگی تک محدود کر دیا گیا ہے خواہ وہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس اے آ ر کرنیلیس ہوں یا پھر گروپ کیپٹن سیسل چوہدری،میجر جنرل معظم جولین جیمزہوں یا پھر سہیل سسٹرز کے علاؤہ بہت سی مسیحی ہستیاں ہیں جنہوں نے ملکی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اور بیشتر اداروں میں تعلیم،صحت،اور سول سروسز وعسکری اداروں میں بھی کافی دفعہ قابلیت کو بھی نظر انداز کیا جا تا ہے۔یہاں پر بتاتا چلوں کہ،سول سروسز سے آشر عظیم کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا۔اُس شخص نے محب وطن پاکستانی ہوتے ہوئے جن سنگین غداری جیسے الزامات کا دفاع کیا مقدمہ جیتا، اور پھر اپنی بچی کھچی عزت سمیٹ کر بیرون ملک چلا گیا۔اسطرح کے کئی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عزت گنوانے کی خاطر سرکاری نوکریوں کو چھوڑ دیابہت سی مسیحی خواتین کو دوران نوکری حراساں کیا جاتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے مسیحی اپنے ملک قیام پاکستان سے اب تک تمام شعبہ ہائے زندگی میں اہم ترین زمہ داریوں کے وقتًافوقتًا قربانیاں بھی دیتے آے ہیں اور دے بھی رہے ہیں۔ سول وعسکری اداروں میں کُچھ جگہوں پر امتیازی سلوک بھی کیا جاتا رہا ہے اور ان لوگوں کو یاد دلایا جاتا ہے کہ تمہاری حیثیت اس ملک میں ایک چیونٹی سے زیادہ نہیں،مذہب کی بنیاد پر تفریق کیجاتی ہے۔
پاکستان میں بسنے والی اقلیتیں انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے نشانے پر کیوں۔۔؟
ان تعصبانہ کاروائیوں کا آغاز 1990کے اوائل میں شروع ہوا اور آہستہ آہستہ زور پکڑتا گیا،کسی بھی سیاسی یا ریاستی ادارے نے ان کو لگام ڈالنے کی کوشش نہیں کی اگر کسی نے ان باتوں کی پیروی کی،بے گناہوں کی مدد کرنے کی کوشش کی گئی تو اُن کو موت کی آغوش میں سُلا دیا گیا۔ یہاں تک کہ جب بات اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ اس بات کو تقویت دے کر توہین مذہب/ توہین رسالت کا قانون بنا دیا گیا۔جسکی زد میں نہ صرف مسیحی آے بلکہ اس قانون کی زد میں بہت سے مسلمانوں کا بھی استحصال ہوا جن میں سے کئی آج بھی قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرہے ہیں۔ مذہب کی آڑ لے کر ایک جنونی شخص نے موجودہ گورنر سلمان تاثیر کو وفاقی داری الحکومت میں اپنے محافظ نے شہید کر دیا، اور پھر اس کے بعد ایک اقلیتی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو آسیہ بی بی کے کیس کی پیروی کرنے کی وجہ سے شہید کیا گیا۔ بلکہ اس قانون کا استعمال سب سے زیادہ اقلیتوں کے استحصال کے لیے کیا ہے جس کی ذد میں کبھی کوئی سکھ، کبھی ہندؤ اور کبھی کوئی مسیحی۔ جب بھی کسی کو کسی غیر مسلم سے کوئی بدلہ یا پھر رنجش ہوئی یا پھر ان کی ترقی نہ برداشت ہوئی تو اس پر کوئی نہ کوئی تہمت لگائی گئی الزامات لگائے گئے مذہبی انتہا پسندی بھینٹ چڑھایا گیا،اور مذہبی انتہا پسندی کی آڑ میں اقلیتوں کو اکثر وبیشتر دبایا گیا۔ توہین مذہب کے الزامات لگا کر مسیحیوں کی تذلیل کی گئی۔اس میں آسیہ بی بی کا کیس کس سے بھولا ہے جسے ا پنے علاقے کے شخص نے انا کی بھینٹ چھڑایا، مگر جس کرب سے وہ خاندان گزرا اس کا مداوا کون کرے گا۔چند ماہ قبل رونما ہونے والے سرگودھا کے المناک واقعہ کی کہانی کبھی نہ بھولنے والی ہے جو سالوں سے ایک ہی جگہ پر بسنے والا ہنستا بستا خاندان مذہبی انتہا پسندی،تفرقہ بازی کی سوچ رکھنے والوں کی بھینٹ چڑھ گیا اس کی املاک کو نقصان پہنچا یا گیا، اُسے اور اس کے خاندان کو رُسوا کیا گیا،کیا وہ برابر کا شہری نہیں تھا؟ دیارِغیرسے سالوں تک محنت مزدوری کرکے زرمبادلہ اپنے ملک لایا اور اپنے آبائی شہر سرگودھا میں ایک بطور کاروباری شخصیت نام کمایا،مگر لاحاصل۔۔اسے مذہبی انتہا پسند لوگوں نے بیدردی سے تشدد کیا جسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔اور وہ چند روز موت وحیات کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ ایسے واقعات کا رونما ہونا بین المذاہب ہم آہنگی کو روکنے کی گھنونی سازش ہے اس طرح کے واقعات کو فی الفور روکنے کیلئے مذہبی و سماجی،سیاسی رہنماؤں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق بطور مسلمان ہمیں اقلیتیوں کو جگہ دینی چاہیے۔
(جسٹس سید منصور علی شاہ سنیئر جج آف سپریم کورٹ)
گزشتہ روز نجی ٹی وی چینل کے مطابق ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینیئر جج صاحب نے فرمایا کہاسلامی تعلیمات کے مطابق بطور مسلمان ہمیں اقلیتیوں کو جگہ دینی چاہیے۔(جسٹس سید منصور علی شاہ سنیئر جج آف سپریم کورٹ آف پاکستان) حالانکہ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی سانحہ جڑانوالہ واقع جگہوں کا دروہ کیا،اور مسیحیوں کو اس امر کی یقین دہانی کروائی تھی کہ اس سانحہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے گی لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود ایسا نہیں ہوا اور چند روز قبل جڑانوالہ واقعہ کے مرکزی کردار کو رہا کر دیا گیا ہے ٹھوس ثبوت اور شواہد کے کے باوجود مجرم رہا ہو گیا۔
مینارٹی ڈے کے انعقاد کا فیصلہ 2009میں اس وقت کی موجودہ حکومت پیپلز پارٹی نے کیا تھاجس کا مقصد قومی سطح پر اقلیتیوں کے اہم کردار کو تسلیم کرنا آور معاشرے میں رواداری وہم آہنگی کو فروغ دینا تھا 11اگست کو اقلیتوں کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا اور قاید اعظم محمد علی جناح کی تقریر 11اگست 1947کوکی گئی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ان تمام سانحات اور واقعات کو شاعر،پاسٹر اعجاز گل صاحب اپنے جذبات کا اظہار الفاظ کی شکل میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
قائد اعظم کے تصورات کی دھوم مچاتے ہیں
چلو 11 اگست کو یوم اقلیت مناتے ہیں
تاریخ میں 11اگست کو مقام خاص حاصل ہے
قوم آج مسجد،مندر،گرجے میں داخل ہے
برابری کی نوید بابائے قوم سناتے ہیں
یہ سوہنی دھرتی سدا شاد آباد رہے گی
آنکھوں کی ٹھنڈک اقلیت جند جان کہے گی
اقلیت اور اکثریت کا ہم فرق مٹا تے ہیں
خدائے قدوس نے اکثریت کو اقلیت بنادیا
فرعون کو آپ ہی قلزم میں دفنا دیا
جڑانوالہ کے بعد ظالم سرگودھا جلاتے ہیں
کبھی منظر بدلنے میں وہ دیر نہیں کرتا
دانی ایل کا ساتھی مرنے سے نہیں ڈرتا
خوف کی فضا میں اعجاز حمد گاتے ہیں
کچھ دن پہلے اسلام آباد میں ایک مذہبی جماعت کی جانب سے درخواست دائر کی گئی ہے جس میں اقلیتیوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کرنے سے روکنے کے لئے کہا گیا ہے اور درخواست گزار نے واضع الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ اگر اس کی درخواست پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو نتائج اچھے نہ ہوں گے۔ ورنہ فیریئر ہال کے سامنے احتجاج کیا جائے گا۔(سوشل میڈیا پر دائر درخواست کی نقول دستیاب ہیں)
ذرائع یہ بتاتے ہیں مینارٹی ڈے کے حوالے سے منسوب،منعقدہ تقریبات کے انعقاد کیلئے اجازت نامے منسوخ کردیے گئے ہیں ہر طرح سے اقلیتیوں کے حقوق کو پامال کرنے کوششیں کیں جاتی ہیں اور ان کے ساتھ مسلسل سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ایک طرف ریاست اقلیتوں کی حقوقِ تحفظ کی مالا جپتی ہے اور دوسری طرف سے اکثر انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے نمائندے و جھتے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا تے نظر آتے ہیں۔اور یہ سارا کام ریاست کی ناک کے نیچے ہو رہا ہوتاہے کئی دفعہ ہمارے امن و امان برقرار رکھنے والے ادارے ایسے انتہا پسند گروہوں کی نشان دہی بھی کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کی کاوشیں رنگ نہیں لاپاتیں۔ کیا ریاست اس طرح کی دائر درخواستوں کی جانچ پڑتال کر پائے گی۔۔۔؟ جن بیگناہوں کو الزامات کی آڑ میں ناحق مارا گیا ان کو انصاف مل سکے گا۔۔؟،جن کی تذلیل کی کی گئی ان کا ازالہ کیاا جائے گا۔۔؟آخر کب تک مذہب کی آڑ میں چھپ کر اقلیتوں پر ظلم وبربریت کا بازار گرم رہے گا۔۔؟ آخر کب تک۔۔؟
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔