پاکستان میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتمل ہجوم کو جمع کرنا اب ایک عام ذریعہ بن چکا ہے

تحریر: پرویز بھٹی

پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے افراد پر مشتعل ہجوم کے حملے یا ایسے ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعات ماضی میں بھی پیش آتے رہے ہیں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کا الزام پرتشدد ہجوم کو جمع کرنے کا اب ایک عام ذریعہ بنتا رہا ہے۔
گذشتہ ماہ ہی صوبہ پنجاب کے علاقے سرگودھا مجاہد کالونی میں قرآن کی توہین کا الزام لگائے جانے کے بعد مشتعل ہجوم نے نہ صرف ایک گھر اور کارخانے کو نذرِ آتش کیا بلکہ ایک شخص نذر مسیح کو پولیس کی موجودگی میں بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا اور تشدد کے بعد جانبحق بھی ہو گیا۔
اس سے قبل 2023 میں پہلے فروری کے مہینے میں پنجاب میں ہی ننکانہ صاحب کے علاقے واربرٹن میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے ایک شخص کو پولیس کی حراست سے چھڑوا کر ہلاک کر دیا تھا۔
چند ماہ بعد16 اگست2023 میں جڑانوالہ میں توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد مسیحی آبادیوں پر حملے کے واقعات پیش آئے جن میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی تھی۔
اس سے قبل 2021 میں ایک سری لنکن شہری کو ہجوم نے توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا ان واقعات سے دنیا بھر میں پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی اور ریاستی اور قانون نافذ کرنے والوں کے اداروں پر غیر مسلم کو تحفظ دینے کے حوالے سے بہت سے سوالات کھڑے ہو گئے۔
دراصل ملک میں مذہبی شدت پسند قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں پر یقین نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ خود ہی قانون ہاتھ میں لیں اور فوری انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایسے لوگ جانتے ہیں کہ ہجوم میں ان کی اور ان کے فعل کی پہچان ختم ہو جاتی ہے اس لیے انہیں علم ہے کہ ان کی پکڑ نہیں ہوگی۔ اور وہ جانتے ہیں کہ اگر ہجوم میں پرتشدد واقعات کے دوران بندہ مر گیا تو زیادہ سے زیادہ قتل کا مقدمہ ہوگا جس سے ملک کے ناقص عدالتی نظام کے باعث وہ باآسانی بری ہو سکتے ہیں زخمی ہوا تو اس پر مقدمہ ہوگا تو چونکہ وہ تشدد ہجوم کا ایک حصہ ہیں اس لیے انہیں کسی سزا کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بس یہی وہ خلا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں نقص ہے جس کے باعث پرتشدد ہجوم اور مذہبی شدت پسند سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔حکومت، ریاستی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بہت سنجیدگی سے ان معاملات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان جو کہ پہلے ہی قرضوں اور معاشی مشکلات کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اقلیتوں کو تحفظ دینے میں بری طرح ناکام ہے پاکستان میں ریاستی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس پر تشدد ہجوم اور مذہبی شدت پسندوں کو فوری طور پر کنٹرول کرنے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ ایسے واقعات دنیا بھر میں پاکستان کے لیے بدنامی کا باعث ہوتے ہیں۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading