سنگاپور کے موجودہ وزیراعظم لارنس وانگ نے الیکشن کیم پین کے درمیان میں ہی ایک زبردست تقریر کی جس کا مخاطب وہ سیاسی جماعتیں تھیں جو سیاست کو مذہب کا سہار لے کر استعمال کرتی ہیں اور جس کے نتیجے میں ایک خاص قسم کا گروہ اپنے اقتدار کو عقیدے کے بنیاد بنا کر طول دے دیتا ہے۔ اس سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کے معاشرہ کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ملک کی ترقی کی بجائے اس سیاسی گروہ کی ذاتی ترقی ہو تی ہے اقرباء پروری مذہبی بنیادوں پر ہونے لگتی ہے اور معاشرہ اُنچ نیچ کا شکار ہو جاتا ہے۔ مخالف عقیدہ رکھنے والے لوگوں کے استحصال کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع جا تا ہے جو کبھی کبھی غلامی کی ایک شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لوگ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر اپنے نمائندے چنتے ہیں اور ایک خود مختار ریاست بننے کاعمل دہائیوں تک رک جاتا ہے مطلب جب سیاست عقیدہ بن جائے اور سیاست دن مقدسین تو احتساب کا عمل مشکل ترین ہو جاتا ہے۔
مسٹر لارنس نے اپنی تقریر میں بار بار ایک بات پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ سنگا پور میں کچھ لوگ مذہب کی بنیاد پر چناوجتنا چاہتے ہیں جس میں انتہاپسندی کے جنم لینے کے خدشات ہیں جبکہ سنگاپور ایک سیکولر سٹیٹ ہے جو سب مذاہب کو عزت و تقریم سے دیکھتی ہے اگر یہ مذہبی اجارا داری کا سلسلہ چل پڑا تو سنگاپور براعظم ایشیامیں اپنی معاشی اور سیاسی ساکھ کھو بیٹھے گا اور ہماری جو توانائی سنگاپور کی ترقی پر بلا رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر ہو رہی یکسر رک جائے گی ٹوئرازم سمیت دیگر کاروباری ذرائع شدید متاثر ہونگے،ہم نے اپنے ملک کو امن اور انصاف کی بنیاد پر ایک معاشی طاقت بنایا ہے جہاں سب لوگ اپنی اپنی ذاتی مذہبی حیثیت سے ایک دوسرے کو قبول کر کے ایک سنگاپورین کی طرح رہتے ہیں۔ ہم سب کا پہلا ایجنڈا سنگاپور کی ترقی ہونا چاہیے نہ کہ اپنے مذہب اور قبیلوں کی ترقی،اگر ایسا ہوگیا تو ہم اس نا اتفاقی کے جنگ و جدل میں داخل ہو جائیں گے۔ لہذا مذہب اور ریاست دو مختلف چیزیں ہے اور ریاست کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرینگے تو لوگ سنگاپورین نہیں بلکہ خود کو مسلمان، ہندو،مسیحی اور بدھ کے طور پر ہی لینگے اور ہر قبیلہ اپنی دھاک بٹانے کی کوشش کریگا جس کے نتائج بھیانک بھی نکل سکتے ہیں اور اس کے ساتھ جو قومی مفاد کا عمل وہ بھی رک جائے گا۔ مسٹر لارنس کا وہ جملہ بالکل قائداعظم کی وہ گیارہ اگست کی تقریر کے ایک جملے سے مماثلت رکھتا ہے کہ ”ریاست کو آپ کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں“۔
پاکستان دو قومی نظریے کے بنیاد پر وجود میں آیا، ہم نے تحریک پاکستان کے وقت اس نعرے کی بنیاد پر یہ ملک پاکستان حاصل بھی کرلیا۔ اب جب کہ ہمارا مقصد حل ہو گیا تو ہمیں آگے بڑھنا چاہییے تھا لیکن ہم آج بھی 1947 ء میں اٹکے ہوئے ہیں کیوں ہم نے یہ فیصلہ لینے میں ستر سال سے زیادہ کا وقت لے لیا اورآج تک اس بحث میں الجھے ہوئے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے کہ عوامی ملک ہے۔ ہم سے تیس سے چالیس سال بعد آزاد ہونے والے ملک اب آزاد ہو چکے ہیں لیکن ہم آج تک آزاد نہیں ہو پائے، کیونکہ جب تک کسی بات کا فیصلہ نہ اس کو عالم برزخ کہتے ہم دراصل ہمالم برزخ کی حالت میں ہے جہاں نہ جزا مل رہی نہ سزا مل رہی ہے۔ تقسیم در تقسیم قوم سے جب پوچھا جاتا ہے کہ مذہب پہلے ہے کہ ریاست پہلے تو وہ کہتے مذہب پہلے ہے۔
چلو مان لیا اگر ایسے تو مذہب زندگیوں میں پہلے درجے پر کیوں نہیں آتا،محض نعرو ں تک محدو د دین کے مانی دن بد ن لادین بن رہے ہیں۔ کیونکہ ہم نے سب کچھ یکجا کر دیا ہے۔ ہماری وفائیں اپنے عقیدوں اور قبیلوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہاں کوئی پاکستانی نہیں، چاہے تو بازار میں نکل کر آدمیوں سے پوچھ کر دیکھ لیں۔لہذا ہمیں اور کچھ نہیں تو سنگاپور سے ہی سیکھ لینا چاہیے کہ ریاست کیسے چلانی ہے، نعروں اور ترانوں سے یا یکجا ہو کر ایک قوم کی طرح یا عملی طور پر پاکستانی بن کر۔ دنیا نے ایک فیصلہ کر لیا ہے وہ سب سے پہلے اپنے قوم کے وجود کو قائم کرینگے پھر کچھ اور کیونکہ کوئی ملک دین کی بنیاد پر شہریت نہیں دیتا بلکہ قوم کی بنیاد پر دیتا ہے اس کی مثالیں دنیا میں موجود ہیں۔ پس ریاست اور مذہب دو الگ چیزیں ہے ان آپ کو یکجا کرنے کا وقت گزر چکا ہے ہم کافی لیٹ ہو چکے، قومی مفاد ملحوظ خاطر رکھیں دین و مذہب کو ذات پر لاگو کریں ہوسکتا ہے معاشرہ میں اچھائی پیدا ہو جائے اور آگے بڑھیں کیونکہ ملکوں کی ترقی قومی مفاد پر ہوتی نہ کسی اور چیزپر۔ پاکستان پایندہ باد۔
ریاست اور مذہب ۔ امجد پرویزساحل
