تحریر: اے۔ ڈی ساحل منیر
مارچ کا مہینہ یوں تو اہلیانِ پاکستان کے لئے قراردادِ پاکستان کی صورت میں برطانوی سامراج، استعمار اور غلامی سے نجات حاصل کرنے کی جدو جہد سے عبارت ہے لیکن شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ استحصالی قوتوں کے خلاف جدوجہد کی اس سے پہلے بھی ایک پوری تاریخ موجود ہے اور انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی سے لے کر برِصغیر کی آزادی تک بہت سے لوگوں نے اپنی پوری زندگی سامراجی قوتوں کے خلاف لڑتے ہوئے گزار دی۔ مگر ہم نے اپنی تاریخ میں ایسے لوگوں کو محض ان کے مذہب و عقائد کی بنا پر فراموش کر دیا۔ ہمارے نصاب و تاریخ میں ایسے بے مثال غیر مسلم جانثاروں کا ذکر تک نہیں ملتا جنہوں نے بلا امتیاز مذہب و نسل اپنے خونِ جگر سے آزادی و انقلاب کے چراغ روشن کئے اور جھومتے گاتے ہوئے پھانسی کے پھندوں پر جھول گئے۔ مادرِ وطن کے انہی شیر دل سپوتوں میں ایک نام بھگت سنگھ کا ہے جسے آزادی کے لئے لڑنے کی پاداش میں اسی مارچ کے مہینے میں تختہء دار پر لٹکایا گیا۔ بھگت سنگھ آج بھی برِ صغیر کی تحریکِ آزادی کی ایک ایسی اٹل سچائی ہے جسے کسی طور بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے زمیندار گھرانے کا تعلیم یافتہ اور خوبرو نوجوان جو سامراجی گماشتوں کا آلہ کار بن کر زندگی کی رنگینیوں اور حکومتی مراتب سے لطف اندوز ہو سکتا تھا۔ لیکن اس سرپھرے نوجوان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا اور اپنے وطن کی آزادی کے لئے استعماری قوتوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے بھی گریز نہ کیا۔ پنجاب کا یہ ہیرو اور شیر جوان لائلپور(فیصل آباد)کے گاؤں 238 گ ب جڑانوالہ میں 27 ستمبر1907ء کو پیدا ہوا۔جب وہ پیدا ہوا تو اس کا باپ انگریزوں کی قید میں تھا جبکہ اس کے دادا نے بھی 1857ء کی جنگِ آزادی لڑی تھی۔ اس طرح غلامی سے نفرت اور آزادی کی تڑپ اس کی خاندانی وراثت قرار پائی۔ یہی وجہ ہے کہ حصولِ تعلیم کے دوران ہی وہ انگریزی استعمار کے خاتمے کے لئے نبردآزما قوتوں کا ہم خیال بن گیا اور پھر اپنی بھر پور جوانی آزادی کی قربان گاہ کی نذر کر دی۔اس کی موت آج بھی محروم و پسماندہ طبقات کو آزادی، مساوات اور حریتِ فکر کی ترغیب دیتی ہے۔ اس نے برطانوی سامراج کے خلاف اپنی زندگی کی آخری سانس تک کسی بھی مصلحت سے کام نہ لیا اور اپنے وطن کی آزادی کے لئے ایک خونچکاں جدوجہد کا انتخاب کیا۔ پاکستان میں بہت سے لوگ بھگت سنگھ کے سکھ پس منظر اور اس کے سوشلسٹ نظریات کی وجہ سے اسے برِصغیر کی تحریکِ آزادی کا ہیرو ماننے سے انکاری ہیں۔ لیکن اس کے باوجود زمانہ اب بھی وطن کے اس بہادر سپوت کی جرات و عظمت کو سلام پیش کرتا ہے اور ہر سال مارچ کا مہینہ اس کی یادوں کے چراغ کی لو کو مزید تیز کر دیتا ہے۔ انگریزی جبر و استبداد کے خلاف اس عظیم ہیرو نے مجبوراً تشدد اور خون خرابے کا راستہ اختیار کیا جس کی وجہ سے اس پر کئی مقدمات بنے اور اسی قسم کے ایک مقدمہ میں 23 مارچ 1931ء کو اسے اس کے دوسرے ساتھیوں راج گرو اور سکھ دیو کے ساتھ سنٹرل جیل لاہور میں تختہء دار پر چڑھا دیا گیا۔برِصغیر کی تاریخ کے اس ناقابلِ فراموش کردار کا لہو آج بھی استحصالی نظام اور طبقاتی امتیازات کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کو حوصلے، یقین اور جرات مندی کا درس دیتا ہے۔ لہٰذا بھگت سنگھ جیسے سرفروشوں کو مذہب و عقائد کے تعصب سے بالا تر ہو کر ان کا حقیقی مقام و مرتبہ دینا چاہیے۔ واضح رہے کہ بھگت سنگھ کو جس مقدمے میں ساتھیوں سمیت سزائے موت سنائی گئی اس کی سماعت کے دوران بھگت سنگھ نے عدالت کے کٹہرے میں جو دلیرانہ بیان دیا وہ آج بھی آزادی، انقلاب اور حریتِ فکر کے متوالوں کے لئے ایک نادر نمونہ ہے۔اس کا یہ تاریخی بیان کچھ اس طرح تھا:
ِِ ’’میں اور میرے ساتھی مقدمے کی کارروائی میں کسی طرح کا حصہ نہیں لینا چاہتے کیونکہ نہ تو ہم سرکار کو انصاف پر مبنی سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے قانونی طور پر جائز حکومت۔ ہم اپنے پورے یقین سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ قوت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ کوئی شخص یا سرکار ایسے کسی اختیار کی حقدار نہیں جو عوام نے اسے نہ دیا ہو۔ چونکہ یہ سرکار اس اصول کی خلاف ورزی کرتی ہے اس لئے اس کا وجود جائز نہیں۔ ایسی سرکاریں جو دوسرے ملکوں کو لوٹنے کے لئے قائم کی جاتی ہیں ان کے پاس تلوار کے علاوہ کوئی جواز نہیں ہوتا۔اسی لئے ایسی حکومتیں وحشیانہ طاقت سے آزادی کے خیالات اور آزادی کی امنگیں کچلتی ہیں۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ انگریز سرکار ہندوستان پر زبردستی تھوپی گئی ہے۔ یہ حکومت غنڈوں، ڈاکوؤں کا گروہ اور لٹیروں کا ٹولہ ہے جس نے لوگوں کو لوٹنے کے لئے ہر طرح کی طاقت جمع کر رکھی ہے۔ یہ سرکار امن و امان کے نام پر اپنے مخالفین کو کچل دیتی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ سامراجیت ایک بڑی ڈاکہ زنی کی سازش کے سوا اور کچھ نہیں۔ سامراجیت انسان کے ہاتھوں انسان اور ملک کے ہاتھوں ملک کے استحصال کی آخری حد ہے۔ سامراجیت پسند اپنے مفاد اور لوٹنے کی سکیموں کو پورا کرنے کے لئے نہ صرف عدالتوں اور قانون کا قتل کرتے ہیں بلکہ خطرناک ڈھنگ سے لوگوں کا قتلِ عام کرتے ہیں۔ استحصالی عزائم پورے کرنے کے لئے جنگ جیسے خوفناک جرائم بھی کرتے ہیں۔ جہاں لوگ ان کے نادر شاہی اور استحصالی مطالبات قبول نہ کریں ان کی نفرت انگیز سازشوں کو ماننے سے انکار کر دیں تو وہ بے قصور لوگوں کا خون بہانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ امن و امان کی آڑ میں وہ امن و امان کو تباہ کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے اور ہر انسان کو اپنی محنت کا پھل پانے کا بھی حق حاصل ہے۔ ہر ملک اپنے قدرتی وسائل کا مکمل طور پر مالک ہوتا ہے۔ اگر کوئی سرکار عوام کو ان حقوق سے محروم رکھتی ہے تو عوام کا یہ حق ہی نہیں بلکہ فرض ہے کہ وہ ایسی حکومت کو ختم کر دیں۔ چونکہ برطانیہ کی سرکار ہمارے بیان کردہ اصولوں کے بالکل منافی ہے اس لئے ہمارا ایقان ہے کہ جس طریقے سے بھی انقلاب لایا جا سکے اس حکومت کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ اس کے لئے ہر طرح کی کوشش اور تمام طریقے اخلاقی طور پر جائز ہیں۔ ہم موجودہ سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں انقلابی تبدیلی لانے کے حق میں ہیں۔ ہم موجودہ سماج کو پورے طور پر ایک نئے سماج میں بدلنا چاہتے ہیں تاکہ انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ناممکن بنا کر عوام کے لئے ہر میدان میں مکمل آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ جب تک موجودہ سماجی ڈھانچہ بدلا نہیں جاتا، ساری دنیا ایک تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ جہاں تک پر امن اور دیگر ذرائع سے انقلابی آدرش اپنانے کا سوال ہے تو ہم اعلان کرتے ہیں کہ اس کا انتخاب موجودہ حکمرانوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ انقلابی انسان دوست ہوتا ہے۔ ہم انصاف اور برابری کی بنیاد پر قائم صحیح اور حقیقی امن چاہتے ہیں۔ ہم جھوٹے اور بناوٹی امن کے حامی نہیں جو بزدلی سے قائم ہوتا ہے اور بھالوں اور بندوقوں کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ انقلابی اشد ضرورت اور آخری داؤ کے طور پر بم اور پستول کا سہارا لیتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ امن و قانون انسانوں کے لئے ہے نہ کہ انسان امن اور قانون کے لئے۔ہم اس عدالت کے تحت موجودہ مقدمے کی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہیں‘‘۔