تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
دنیا کی پہلی ماں حوا جب کہ پہلا باپ حضرت آدم ہے۔نسل انسانی کی تاریخ میں یہ پہلا جوڑا ہے جنہیں والدین بننے کا شرف حاصل ہوا۔بعد ازاں اسی جوڑے کی مرہون منت نسلی انسانی معرض وجود میں آئی اور تا حال یہ سلسلہ تواتر و تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے اور جب تک دنیا قائم و دائم ہے۔ یہ سلسلہ اپنی تاریخ دہراتا رہے گا۔
عالم کائنات میں قدرت نے انسانوں کو رشتوں کی ڈوری میں موتیوں کی طرح باندھ رکھا ہے۔ سبھی رشتوں کا تقدس اپنی اپنی جگہ سہی لیکن جو عزت و توقیر خدائے ذوالجلال نے ماں کی جھولی میں ڈال دی ہے۔وہ سب رشتوں پر سبقت لے جاتی ہے۔کیونکہ خدا نے ایک ماں کو جو وصف اور اولاد سے محبت کا جذبہ عطا کیا ہے۔اس میں اپنائیت کے چشمے، تربیت کے چراغ ، محبت کی فراوانی اور اپنی خوشیوں کو دوسروں پر نچھاور کرنے کی جو جواں مردی ہے۔اس کا نعم البدل کسی دوسرے رشتے میں سمو نہیں سکتا۔ چونکہ ماں کے نام کی عرفانیت اور معنویت حقیقی جذبوں کی ترجمان و سرشار ہے۔کیونکہ اس نام میں نہ کھوٹ ہے۔نہ بغاوت ہے۔ نہ ملاوٹ ہے۔بلکہ اس کے قلب و ذہن سے ہر وقت محبت کے چشمے پھوٹتے رہتے ہیں۔اس کی کوکھ سے رحم ، ہمدردی ، ایثار، وفا ، ایمانداری اور خلوص جیسی صفات کا جنم ہوتا ہے۔ ان سب صفات کا بہاؤ قدرتی چشمے کی مانند ہے۔ خدا ماں کی فطرت سے ان صفات کا کنواں کھلا رکھتا ہے تاکہ ہر ایک کی ضرورت اور طلب کے مطابق اس کی ضرورت پوری ہو سکے۔
قدرت نے اولاد کے لیے ایک ماں کو جو تڑپ ،محبت اور وفا کا بوجھ دیا ہے۔وہ اسے بخوشی اٹھاتی اور برداشت کرتی ہے۔بلکہ وہ محسوسات اور اپنائیت کے ذریعے اپنی وفاداری کا ثبوت عمل و کردار کے ذریعے فراہم کرتی ہے۔
وہ شب و روز کی پرواہ کیے بغیر اپنی ذمہ داریوں کا قرض اتارنے میں مگن رہتی ہے۔ حالات چاہے کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔اس کی محبت اور وفا میں کمی نہیں آتی۔کیونکہ قدرت نے ایک ماں کے اندر وفاداری اور ایمانداری جیسی صفات کو اس کے لہو میں شامل کر دیا ہے۔وہ ہر وقت اپنی زبان پر دعاؤں کا بخور جلاتی ہے۔شمع بن کر جلتی ہے۔ دوسروں کو روشنی مہیا کرتی ہے۔اپنے اندر توانائی کے ذخائر رکھتی ہے۔اپنی فطرت سے وفا کے شعلے بجھنے نہیں دیتی۔ موسموں کی پرواہ کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔اپنے اندر پھولوں جیسی خوشبو کا احساس رکھتی ہے۔جہاں سے بھی گزرتی ہے۔ دلوں کو موہ لیتی ہے۔ ہر وقت زبان پر محبت کے نغمات گنگناتی ہے۔ سب فکروں کے بوجھ اٹھا کر صبح سے شام تک کم کرتی رہتی ہے۔ہر دن کے نئے نئے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ چپکے چپکے اپنے آنچل سے ٹھنڈی ہوا کے جھو نکے دیتی ہے۔ اس کے دم سے ہر موسم بہار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ نئے رنگ ، نئی کلیاں ، نئی کونپلیں ، نئے شگوفے، نئی سوچ ، نئی فطرت اور نئی حکمت سے معمور ہو کر زندگی کا ہر دن آسان تر بناتی جاتی ہے۔
حیرت ہے ماں کے ماتھے پر کبھی شکنیں نہیں پڑتیں۔ اپنی ذات پر ہر دکھ سہہ کر بھی شکوؤں کی رال نہیں ٹپکاتی۔بلکہ ہر ناحق بات کو بھی ہضم کر جاتی ہے۔ ہر وقت اپنے ہاتھ میں محنت کا ہل اور تربیت کے اجزائے ترکیبی رکھتی ہے۔اپنے سب رشتے ناطے بھول کر اولاد کی پرورش میں گم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ قدرت نے اس کے اندر ممتا کا ایسا چراغ جلا رکھا ہے جس پر خواہ آندھیاں چلیں، زلزلے آئیں یا طوفان آئیں یہ ژالہ باری ہو ۔وہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔ اپنی محبت میں کمی نہیں آنے دیتی۔ بلکہ جرات و بہادری کے جوہر دکھا کر اپنی شان و عقیدت میں وقفے وقفے سے اضافہ کرتی رہتی ہے۔ قدرتی طور پر اس کے خون میں محبت کی تپش ، چہرے پہ مسکراہٹ ، اعصاب میں وفا کی سلوٹیں ، آنکھوں میں خوشی کے آنسو، لبوں پہ تر و تازگی کے پھول رکھ کر اپنی زندگی کا سفر جاری و ساری رکھتی ہے۔ اپنے جذبات کی بدولت تمام رکاوٹیں عبور کر لیتی ہے۔ اپنی خوشیوں کی پرواہ کیے بغیر محبت کے جذبات کو اولاد پر نچھاور کر دیتی ہے۔ اس کے دل کا موسم کبھی نہیں بدلتا۔بلکہ سدا بہار رہتا ہے۔گرمی ہو یا سردی ، بہار ہو یا خزاں ۔ وہ موسموں کی پرواہ کیے بغیر اپنے آنچل سے ٹھنڈی ہوا دیتی ہے۔موسم تو آتے جاتے اور اپنا رنگ بکھیرتے ہیں۔مگر اس کے دل کا موسم کبھی نہیں بدلتا۔ ایسے ماحول اور معاشرے میں جذبات کی آب و ہوا صرف ماں کے پاس ہوتی ہے۔ وہ ہمارے غموں کو دیکھنے کے لیے شاہین جیسی آنکھیں رکھتی ہے۔
وہ اولاد کے بن کہے سب کچھ محسوس کر لیتی ہے۔ کیونکہ اس کے اندر احساس کے چشمے اور محسوسات کے نمکیات ہوتے ہیں۔ اس کی زبان ہر وقت محبت کی جگالی کرتی ہے۔
دوسروں کو کچھ کہنے کے لیے اس کے پاس سلیقے اور قرینے کے ان گنت انداز و جملے ہوتے ہیں۔وہ اظہار سے زیادہ فکر و عمل کے نظریات سے خدمت کرتی ہے۔اپنی زبان کو برے منصوبے ، جھوٹ، فریب ، مکر ،ناچاقی اور ناپاکی جیسی گندگی سے پاک رکھتی ہے۔ اندر باہر جاتے وقت ہمیشہ لبوں پہ دعاؤں کا بخور جلاتی ہے۔احساسی ذمہ داری کا چراغ جلا کر کھوئی ہوئی چیزوں کو تلاش کرتی ہے۔ خاندان کے سب افراد کے لیے خدمت کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ سب کی خدمت اپنے منشور میں شامل کر لیتی ہے۔
اگر ماں کی حقیقی خدمت اور احسانات کا جائزہ لیا جائے تو وہ بارش کے پانی کی طرح ٹپکتے رہتے ہیں۔ہماری آنکھیں ان کا شمار نہیں کر سکتیں۔ وہ اولاد کی خوشی کے لیے ہر لمحہ قربان کر دیتی ہے۔ اپنے کردار کی بدولت عزت و وقار پاتی ہے۔ اپنی فطرت میں تعلقات و روابط کا چراغ جلاتی ہے۔اپنے اپ کو ملنساری کی روح سے معمور کر لیتی ہے۔
اپنی فطرت کے باعث دوسروں کو دعوت فکر دیتی ہے کہ میرے جیسے ہو جاؤ۔ وفا کرو گے تو وفا ملے گی۔ محبت کرو گے تو محبت ملے گی۔خوشی دو گے تو خوشی ملے گی۔ آئیں اس دن کے موقع پر اپنی ماں کی گود میں عقیدت و محبت کے پھول ڈال دیں۔کھل کر اس کی قربانیوں کا اعتراف کریں۔ ہر روز دل و جان سے اس کی عزت کریں۔خدا عمر درازی کا تحفہ عطا کر دے گا۔ کیونکہ سرفرازی اورکامیابی ماں کی دعاؤں کے بخور سے ہی ممکن ہے۔