تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
دنیا بھر میں ہر سال جون کے تیسرے اتوار باپ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ امسال یہ دن 16 جون کو دنیا بھر میں بڑی شان و شوکت ، عزت و احترام ، محبتوں و وفاؤں اور عقیدت و جذبات کے ساتھ منایا جائے گا۔ باپ کی شفقت ، محنت اور جذبے پر تقاریب کا انعقاد کیا جائے گا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا صحافتی اقدار کی بدولت اپنے حصے کی شمع جلا کر لوگوں کی دہلیز پر اخبار و جرائد کے ذریعے آفاقی صداقتوں کے ترجمان مضامین شائع کریں گے۔
مشرق و مغرب یکساں طور پر اس دن کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اساتذہ اور علماء باپ کی عزت ،مرتبے اور مہربانیوں پر بات چیت کریں گے۔ اسی غرض و غائیت کے تحت والدین اور اولاد کے درمیان رشتہ مضبوط کرنے کیلئے کچھ احساسات اور جذبات کو پروان چڑھانے کیلئے کچھ باتوں اور یادوں کی شمع روشن کی جا رہی ہے۔”
امید ہے اس کوشش سے بہت سی غلط فہمیاں اور تاریک راستے روشن ہو جائیں گے۔ جیسے تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔اسی طرح خاندانی نظام والدین کی مشترکہ کوششوں سے چلتا ہے۔کیونکہ خاندانی نظام بھی ایک ہاتھ سے نہیں چلتا بلکہ وہ بھی دو ہاتھوں کی مرہون منت تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ والدین نعمت خداوندی ہیں ان کا درجہ و مرتبہ دو ہاتھوں جیسا ہے۔
اگر خدانخواستہ ایک ہاتھ کٹ جائے تو خاندانی زیست کو اس طرح پرنمکین نہیں بنا سکتا جیسے ایک شیف تڑکا بھوننے کے فن میں ماہر ہوتا ہے۔ قدرت نے جتنی عزت و توقیر ایک ماں کی جھولی میں ڈالی ہے۔ اسی قدر ایک باپ کو گھر کا مختار ہوتے ہوئے محنت و مزدوری کا جذبہ عطا کر رکھا ہے۔ دنیا میں ان گنت ایسی مثالیں ہیں جو رشتوں کی مضبوطی،ثابت قدمی، ایمان و عمل، محبت کی پیکر اور انسانیت کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہیں۔ انہیں تاریخ و دل سے کون فراموش کر سکتا ہے؟ وہی سنگ دل ہوگا جو ادب و احترام کہ رشتے کو بھول گیا۔ تاریخ ہمیشہ قوموں کو ان کا ماضی یاد دلاتی ہے۔ حال کے قصے اور کہانیاں بیان کرتی ہے۔مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کرنے کے بارے میں شعور و آگاہی فراہم کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تمام معاشرے، مذاہب، تنظیمیں اس حقیقت کی ترجمان ہیں کہ والدین کے بغیر گھر کا موسم خزاں جیسا ہوتا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں گلشن میں ان دو پھولوں کی کمی ہوتی ہے جن کے باعث گھر کی فضا خوشگوار ہوتی ہے۔ جب تک گلشن میں یہ پھول مہکتے ہیں گھر کی رونقیں، محفلیں، چاہتیں، برکتیں اور فضیلتیں برقرار رہتی ہیں۔ خاندان کا حسن و جمال پھیکا نہیں پڑتا۔ بلکہ وہ تر و تازگی، شگفتگی، عمدگی اور خلوص و اپنائیت کا احساس برقرار رکھتا ہے۔
یہ بات تمام بشریت و انسانیت کے فرزندوں کیلئے روشن مثال ہے کہ والدین کے بغیر اولاد کی پرورش ایک سوکھے میدان کی طرح ہے جہاں نہ پانی اور نہ گھاس ہوتا ہے بلکہ وہاں جنگلی اونٹ کٹارے اگے ہوتے ہیں۔ عصر حاضر کے بڑھتے ہوئے تقاضوں اور سوشل میڈیا کے بداثرات نے موجودہ صدی کے نوجوانوں کو جیسے برگشتہ کیا ہے۔
اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ سوشل میڈیا نے نوجوانوں کی نفسیات کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ دوریاں اور فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ ادب و احترام کی شہ رگ کٹ گئی ہے۔ ایک گھر کی چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی تنہائی کا موسم آباد ہے۔ گھر کا ہر فرد الگ الگ خیالات کا مالک ہے۔ سوچ میں کبڑا پن ہے۔ طبیعت میں تناؤ اور بد مزگی ہے۔ ہر وقت گھر میں مخالفت کی آندھی چلتی ہے۔ جذبات کے طوفان اٹھتے ہیں جو سب کچھ اڑا کر لے جاتے ہیں۔ طبیعت میں شورش و تندی بڑھ گئی ہے۔ ہر کوئی دوسرے سے خائف ہے۔ وہم کے مرض میں مبتلا ہے انہیں والدین کی نوک ٹوک دشمنی کا روپ دھار لیتی ہے۔ انہیں حقیر اور ناقص العقل جانا جاتا ہے۔ انکے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی بجائے پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے۔ ان کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ بے بسی، مجبوری اور لاچاری کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ عدم برداشت کی وجہ سے انہیں برا کہا جاتا ہے۔
مذکورہ حقائق کی روشنی میں ہم اپنے اپنے خاندان کی تجزیاتی رپورٹ تیار کر سکتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ عزت و وقار کا معیار جان سکتے ہیں۔ اگر انسان دلجمی سے اس بات پر غور و خوض کرے تو کوئی بھی انسان اپنے والدین کی محبت کا قرض ادا نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جس طرح انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے انہیں سہولیات اور تحفظ فراہم کیا ہوتا ہے۔ ویسا کوئی دوسرا شخص اس ایمان اور جذبے کے تحت ایسی قربانی نہیں دے سکتا۔ کیونکہ والدین بغیر منفی ہتھکنڈوں کے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ انہیں پال پوس کر بڑا کرتے ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ ان کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں۔ انہیں ضروریات زندگی کی تمام سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ اس امر کے باوجود بھی شریر خاندان کے درمیان ایسی دراڑیں ڈال دیتا ہے۔ جہاں تقسیم اور جدائی کی دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اپنے سر پر ناراستی کا خود پہن لیا جاتا ہے۔ ہاتھوں پر ناراستی کی مرچیں لگا لی جاتی ہیں۔
دوسروں پر الزامات کا تھوک پھینکا جاتا ہے۔ پس ہمیں ان باتوں کو ذہن کی پردہ سکرین پر لا کر سوچنا ہوگا۔زمانوں یعنی ماضی حال اور مستقبل کے واقعات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟
کیا ہمارے منشور اور ترجیحات میں اپنے باپ کی عزت کرنا فرض ہے۔ ان کا بڑھاپے میں خیال رکھنا ہمارا دینی حق ہے۔
ان کی سیوا کرنا ہمارا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے۔ بیماری میں ان کی دیکھ بھال کرنا راہ انسانیت ہے۔ انکی ضروریات پوری کرنا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے۔
یقینا ہم اپنے کام سے، کردار سے، ثقافت سے اور روحانیت سے اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ خدا نے ہمیں گوشتین دل اور مافی الضمیر عطا کر رکھا ہے تاکہ ہم اپنے اعمال اور کردار سے ثابت کر سکیں کہ ہم مذہبی، روحانی، ثقافتی، معاشرتی، تہذیبی طور پر ایک مضبوط اور تہذیب یافتہ اولاد ہیں۔ آخر میں ہمیں حضرت موسی کے احکام عشرہ میں سے پانچویں حکم کو یاد کرنا ہوگا ” کہ تو اپنے باپ اور ماں کی عزت کر تاکہ جس ملک میں تو رہتا ہے تیری عمر دراز ہو” (خروج : 20 :12)