تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
پاکستان 14 اگست 1947ء کو معرض وجود میں آیا تھا۔ آزادی کے وقت پاکستان میں مختلف قومیں آباد تھیں۔ ان قوموں میں مسلمان ، ہندو ، سکھ ، مسیحی، پارسی، شیڈول کاسٹ اور زرتشت کے نام شامل ہیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اقلیتوں میں مسیحی قوم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے ووٹ کی نسبت پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔ پاکستان کے جھنڈے میں دو رنگ اس حقیقت کے ترجمان ہیں کہ مسلمان یہاں اکثریت میں ہیں اور سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تاحال اصل بات ان حقائق و اثبات پر ہے جنہوں نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ لوگوں نے ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا۔ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد و پیماں کیا۔ عہد بہ عہد احساس کی لڑی میں جڑ کر محب وطن ہونے کا ثبوت دیا۔ پاکستانی افواج نے سرحدوں کی حفاظت کی۔ اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیوں نے تعلیم و تربیت کہ زیور سے آراستہ کیا۔ تمام ادارے سسٹم کے تحت معرض وجود میں آئے۔ہر شخص نے اپنی اپنی لیاقت ، قابلیت اور ہنر کے مطابق پاکستان کی بقاء اور سلامتی میں اہم کردار ادا کیا ۔خیر وقت گزرتا گیا۔ ماضی حال اور مستقبل کی راہ متعین ہوتی گئیں۔تعمیر و ترقی کے خوابوں کی تعبیر بھی پوری ہوتی گئی۔ اگرچہ پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت اور آمریت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا۔ اس امر کے باوجود بھی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی تواتر و تسلسل کے ساتھ بڑھتی گئی۔یہ سب کچھ کسی ایک فرد بشر کی بدولت ممکن نہیں ہوا بلکہ اس مہم سازی میں ایک مزدور سے لے کر اداروں کے سربراہان تک کی محنت کا رنگ نظر آتا ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ اگر دیگر ممالک کا تقابلی جائزہ کریں تو وہ ترقی میں ہم سے بہت آگے نکل گئے۔ دریافتوں اور ایجادوں میں سبقت لے گئے۔ اپنے منشور میں سسٹم کو زندگی کا اہم حصہ بنا کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے۔ اپنی غلطیوں کی اصلاح کی۔ اپنی معاشی حالت بہتر کی۔ لوگوں کے لیے فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے۔
شب و روز محنت کی۔ ایمانداری کا مظاہرہ کیا۔ جدید مشینری اور آلات بنا کر دنیا کو تبدیل کیا۔ دنیا کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ ممالک کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دیا۔
شعبوں کی کارکردگی کو بڑھایا۔ قابل لوگوں کی قدر کی۔ ہمدردی اور محبت جیسے لباس میں ملوث ہو کر امن کو فروغ دیا۔ دوا ساز کمپنیاں بنا کر نسل انسانیت کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کیا۔ عالمی دن منانے کی شروعات کیں۔ اپنی ثقافتوں کو محفوظ کیا۔ نہ جانے کیا کیا کارنامے سرانجام نہیں دیے۔ مذکورہ باتوں کو دیکھ کر ، پڑھ کر اور سن کر ہوش کے ناخن لینے کو دل کرتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہم نے کتنی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔کتنا ایمانداری کی جڑ کو مضبوط کیا ہے۔ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے کتنی ایمانداری ، سچائی ، محنت ، جذبے اور قربانیاں دی ہیں۔ کیونکہ
” احساس کا ایک موتی بہت سے دکھوں کا قرض ادا کر دیتا ہے” ۔
ہم سب بحیثیت قوم محب وطن ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں۔لیکن ایمان و کردار کے ذریعے شاید اتنا حق ادا نہیں کرتے جتنا ہم کو کرنا چاہیے تھا۔ اگرچہ تاریخ اچھے برے واقعات کی گواہ ہے۔ سبق آموز واقعات سے بھری ہے۔ انسان چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے کارنامے سرانجام دیتا ہے۔ آغاز اپنے گھر سے شروع کرتا ہے۔ کیونکہ تبدیلی کی پہلی گھنٹی خود بجانی چاہیے تاکہ دوسروں کے کانوں تک اس کی آواز پہنچ سکے۔
کیونکہ جو پہل کرتا ہے وہی لیڈر ہوتا ہے۔ اس کی بھیڑیں اس کی آواز سنتی اور اس کے پیچھے چلتی ہیں۔ بھرپور وفاداری کا اظہار کرتی ہیں۔اپنے مالک کو پہچانتی ہیں۔
اگر ہم اپنے ملک کو خوبصورت ، مثالی ، باکردار ، سرسبز و شاداب ، معدنیات سے مالا مال ، پہاڑوں کی خوبصورتی ، ماحولیاتی آلودگی سے نجات اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ تو ہمیں ارتقائی مراحل طے کرنے کے لیے اتحاد و یگانگت ، یک جہتی ، وفاداری اور ایمان داری جیسے عناصر سے لیس ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ جھوٹ فریب اور مکر جیسے امراض سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ اپنی اپنی جگہ احساس ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ کیونکہ سیڑھی پر پہلا قدم رکھنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ پھر باقی سفر آسان ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس روح اور تنقید کے رجحان سے باہر آ جانا چاہیے کہ پہلے دوسرا ٹھیک ہو گا۔ میں بعد میں ہوں گا۔ اسی جہالت نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایمان تنظیم اور اتحاد جیسی جڑ کو دیمک لگایا ہے۔ شاید ہم اب تک اس وہم سے باہر نہیں آ سکے کہ وطن کی ذمہ داری میں میرا کتنا کردار ہے؟
میں کس راہ اور ڈگر پر چل رہا ہوں؟
مجھے اصل میں وہ کام کرنے چاہیے جو پاکستان کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔
اگر ہر محب وطن شہری پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کا ثبوت دینا چاہتا ہے تو اسے ساری باتوں ، کہانیوں اور قصوں کو چھوڑ کر ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ دوسروں کی مثال دینے کے بجائے خود مثالی بننا ہوگا۔ اپنے حصے کی شمع خود جلانی ہوگی۔ راہ میں پڑے کانٹوں کو اٹھانا ہوگا۔ قوم کے بچوں کو نشہ جیسی لعنت سے بچانا ہوگا۔ دہشت گردی اور تخریب کاری کو ختم کرنا ہوگا۔ اپنے اثاثوں کی حفاظت کرنا ہوگی۔ روح پرور ماحول کو فروغ دینا ہوگا۔ دیانت دار نوکر بننا ہوگا۔ مظلوم کا ساتھ دینا ہوگا۔حق سچ کی بات کہنا ہوگی۔ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ قوم پرستی کا حق ادا کرنا ہوگا۔ قابل قدر کارنامے سرانجام دینا ہوں گے۔
ہر شعبے کو استحکام بخشنا ہوگا۔ رشوت سے پرہیز کرنا ہوگا۔ غریبوں ،یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کا خیال رکھنا ہوگا۔ اپنے ملک اور معاشرے کو مثالی بنانے کے لیے عملی میدان میں اترنا پڑے گا۔ ملاوٹ جیسے دھندے کو چھوڑنا ہوگا۔ لوگوں کو موثر اور سستی اشیاء مہیا کرنی ہوں گی۔
مہنگائی کا بوجھ کم کرنا پڑے گا۔ نئے منصوبوں کی بنیاد رکھنا ہوگی۔ تاکہ بے روزگاری پر قابو پایا جا سکے۔ آبادی پر قابو پانا ہوگا کیونکہ بڑی ہوئی آبادی بھی مالی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔جو بے روزگاری کی شرح میں اضافے کا سبب ہے۔ کیونکہ نصیحت کے جال بچھانے سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا کیونکہ جب تک عملی طور پر کچھ کر کے دکھایا نہ جائے۔ جیسے مچھلی پکڑنے کے لیے کینچوا لگایا جاتا ہے۔اسی طرح انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے موثر حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ پاکستان سے ایسے ناپاک عزائم کا خاتمہ ہو سکے جن کے باعث ہم دنیا بھر میں بدنام ہو چکے ہیں۔ کیونکہ کہاوت ہے کہ” بد سے برا بد نام ہوتا ہے” کسی پر الزامات کا تھوک پھینکنے سے پہلے ہمیں یہ بات ضرور سوچ لینی چاہیے کہ وہ تھوک ہمارے منہ پر بھی آ کر گرتا ہے۔ لہذا ہمیں ایسی نازیبا حرکات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔
ہر ادارے کو اصول و ضوابط کے تحت چلنے دینا چاہیے تاکہ نہ ان کی ساکھ متاثر ہو اور نہ ان کا وقار ختم ہو۔ یقینا پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے ایماندار لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔ حکومت وقت کو ایسے معاشی منصوبوں کی بنیاد رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل قریب میں حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔ آخر میں اس شعر سے اجازت چاہوں گا۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ خواں اس کے
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔