تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
پانچ اکتوبر کو استاد کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اسی مناسبت سے استاد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک فکر انگیز تحریر جو تابندہ روایت کی حامل ہے۔
بلا شبہ استاد جسمانی اور روحانی احساس کا وہ پیکر ہے جس کے دل و دماغ تعلیم و تربیت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ وہ اپنی پیشہ ویرانہ صلاحیتوں کے بل بوتے ایسے ہیروں کو تراش دیتا ہے جن کی قدر و قیمت دنیا کے کونے کونے میں بڑھ جاتی ہے۔ نہ جانے کیوں اسے آسمان سے ایک منصب سونپ دیا گیا ہے۔وہ اسی لحاظ اور تڑپ میں ہونہار شاگرد پیدا کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔
اگر ہم روی زمین پر اس چشمے کو کھود کر دیکھیں تو اس میں اذہان و قلوب کو سیراب کرنے کی زبردست قوت موجود ہے۔ ایمان و عمل اور دلچسپی کے عناصر سے مزین ہے کہ انسان اسے کتنا سحر انگیز یا پرتاثیر بناتا ہے۔کیونکہ یہ انبیاء کی میراث ہے اور یہ سعادت بھی ان لوگوں کے حصے میں آتی ہے جس کی کہانی اپنے خاندان سے شروع ہو کر اقوام عالم تک پھیل جاتی ہے۔ یہ رنگ کائنات میں کیسا حسن و جمال ہے۔یہاں ایک استاد کی رگوں میں دوڑنے والا خون تعلیم و تربیت کہ ارادوں سے محو گردش رہتا ہے۔شب و روز ایک استاد اسے اپنے منصب میں اس ذمہ داری کو زندگی کا منشور بنا دیتا ہے۔اس کا فرض اسے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیتا ہے۔ وہ مسلسل نہ ہموار زمین میں علم کا ہل چلا کر ذہنوں کی بنجر زمین کو قابل کاشت بناتا ہے۔پھر اس میں علم و ادب کا بیج بوتا ہے۔سال ہا سال اس کی آبیاری کرتا ہے۔ پھر فصل کاٹنے کا انتظار کرتا ہے۔ وہ اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر تا جاتا ہے۔ نہ جانے کیوں یہ سلسلہ اتنا قدیم ہونے کے باوجود بھی اپنے اندر نئے پن کا انوکھا احساس رکھتا ہے۔اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی نہ تو اس نے اپنا مقام کھویا،نہ اسے ٹوٹنے دیا ، نہ اسے بکھر نے دیا بلکہ نسل در نسل منتقلی کے احکامات صادر کیے۔مشرق و مغرب یکساں اس کی افادیت کے حامی رہے ہیں۔انہوں نے ہمیشہ اس روایت اور تقدس کو بحال رکھا ہے۔ قدرت نے صرف دو رشتوں کو یہ اعزاز دے رکھا ہے۔یہاں وہ اپنی اولاد کی خلوص دل سے پرورش کرتے ہیں۔ انہیں اونچے مقام پر دیکھ کر حسد نہیں کرتے۔بلکہ ہر جگہ خوشی سے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے بچے کامیاب ہوئے ہیں۔ان دو معتبر رشتوں میں پہلا درجہ والدین کے حصے میں آتا ہے جب کہ دوسرا اعزاز ایک استاد کو ملتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے لوگوں کی کس طرح تعلیم و تربیت کرتا ہے؟ انہیں کس طرح افق پر منڈلانے کی ترغیب دیتا ہے؟ کامیاب زندگی کے گر سکھاتا ہے۔ روح میں فکر توانائی اور ذمہ داریوں کا ایندھن بھرتا ہے۔ پھر وہ ایندھن کتنی نسلوں کو توانائی فراہم کرتا ہے۔یقینا اس بات کا احساس معاشرے کے وہ لوگ بیان کر سکتے ہیں جن کے جسم و روح نے اس حقیقت کو اپنے اندر پنپنے کا موقع دیا۔ شاید اسی فکری توانائی نے ارسطو کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ
” میرا باپ مجھے زمین تک لانے کا وسیلہ بنا جب کہ میرے استاد نے مجھے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا” زندگی کا کوئی شعبہ بھی اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس کی تعمیر و ترقی میں ایک استاد اور شاگرد کے درمیان خوش گوار فضا اثرات کی حامل رہی ہے۔ اگرچہ قوموں کے عروج و زوال میں اسی ستارے کے ٹوٹنے اور پیوست ہونے کے نشانات موقع شناسی اور موقع پرستی کے ترجمان رہے ہیں۔ یقینا جن معاشروں نے موقع شناسی کی منازل طے کی ہیں وہ موقع پرستی کا فائدہ اٹھا کر عرش کی سیر و سیاحت پر براجمان ہو گئے۔
علوم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہکشاؤں کی سیر کروائی ہے۔ رسد و ترسیل میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔ قوموں کو زندگی کے آداب، روحانیت کی پہچان، تہذیب و تمدن ، ثقافتوں کی علمبرداری اور زندگی کو کرشموں ، نشانوں اور معجزوں سے بھر دیا۔ قدرت نے ایک استاد کو شہرت کے وہ پر عطا کر دیے جس کی اڑان میں ناقابل فراموش واقعات کی انمول داستانیں تاریخ کے اوراق کی زینت بنی بیٹھی ہیں۔
یقینا یہ حیرتوں کا جہان ہے۔ جہاں دریافتوں کے انبار ہیں۔ رشتوں کی لڑیاں ہیں۔ شعبہ جات کی قطاریں ہیں۔ مذاہب ان گنت ہیں، زبانوں کی الگ الگ دھنیں ہیں، عادات و اتوار مختلف ہیں، اہداف و مقاصد بھی جدا جدا ہیں۔
لیکن استاد اور شاگرد کا ایک ہی تقدس ہے جہاں اقوام عالم بغیر کسی رنگ، نسل اور مذہب کے متفق ہیں کہ یہ رشتہ نہ تو ٹوٹنا چاہیے اور نہ بکھرنا کیونکہ یہ معاشرے میں ایک شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ کٹ جائے گا تو تربیت عدم دستیاب ہونے کے باعث خون کی ندیوں میں تبدیل ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک استاد کی دستک سے ذہن کی بند کھڑکیاں کھلتی ہیں ۔تب اس میں علم کی روشنی داخل ہوتی ہے تو تاریکی کے جراثیم ختم ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک استاد ہی ہے جو ہمیں نیکی اور بدی کے تصور سے آگاہ کرتا ہے۔ زندگی کا سفر کرنا سکھاتا ہے۔علم و آداب سکھاتا ہے۔ قلب و ذہن کو زرخیز بناتا ہے۔ہمت و جرات کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ حالات سے لڑنا سکھاتا ہے۔محنت و مشقت کی عادت ڈالتا ہے۔ ایک دوسرے کا ادب و احترام سکھاتا ہے۔ علم کے زیور سے آراستہ کرتا ہے۔ علم بانٹنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اگر آج ہم اسے عزت و احترام دیں گے تو کل ہماری نسلیں سنور جائیں گی۔ تربیت کا گلشن آباد ہو جائے گا۔ ناراست کانٹوں کی سیج تلف ہو جائے گی ۔زندگی خوشیوں کا گہوارہ بن جائے گی۔ معاشرہ امن، محبت اور ترقی پر گامزن ہو جائے گا۔ اگر ہم واقعی! اپنی دنیا سے تاریکی اور جہالت کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے معاشرے میں استاد کو وہ درجہ دینا ہوگا جو اس کی عزت و تکریم کو بحال رکھتے ہوئے معاشرے کی فلاح و بہبود کا سبب بھی بنتا جائے۔ آخر میں استاد کی عظمت کے لیے ایک شعر ملاحظہ فرمائیں۔
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
( نا معلوم شاعر)
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔