تحریر: ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
یہ کائنات کا سنہرا اصول ہے کہ سیکنڈ منٹوں میں ، منٹ گھنٹوں میں ، گھنٹے دنوں میں ، دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں، مہینے سالوں میں اور سال صدیوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ کائنات کا یہ صدیوں پرانا سفر ہر سال اپنا مدار مکمل کرتا ہے۔پھر ایک نئے موسم میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اتنی صدیاں گزرنے کے باوجود بھی نہ کائنات بدلی اور نہ اس کے سنہرے اصول و ضوابط۔بلکہ یہ کارواں خدا کی تابعداری میں زمانوں کی تاریخ لکھتا ہوا محو سفر ہے۔ خبر نہیں نہ جانے ابھی یہ اور کتنا سفر طے کر کے سکھ کا سانس لے گا۔ یہ حیرتوں کا جہان ہے۔ جہاں آئے دن نت نئی دریافتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ زندگی کے اس انمول سفر میں حضرت انسان نے بدلتے حالات و واقعات کے مطابق اپنی زندگی کو نئی رتوں کے مطابق گزارنے کا فن سیکھا ہے۔ زندگی کا سفر مختصر سے مختصر ترین لمحوں میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ ہر انسان مقصد کی نکیل پکڑ کر اپنی منزل کا انتخاب کر رہا ہے۔ وہ مختصر وقت میں بہت سی کامیابیاں سمیٹنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔ کیونکہ زندگی بے اعتبار پرندے کی مانند ہے جو کب آ کر بیٹھا اور کب اڑ گیا۔ بچپن جوانی اور بڑھاپا ایسی مثلث ہے جس کا کسی دور میں کوئی زاویہ ٹوٹ کر گر سکتا ہے۔اس فانی دنیا میں انسان عجیب کشمکش میں مبتلا ہے۔ وہ اپنی اصلی منزل سے بے خبر ہو کر ایسی منزل پر محو سفر ہو گیا ہے۔ جہاں کانٹے اور بے چینی ہے۔ اس امر کے باوجود بھی وہ اسی راستے کا مسافر ہے۔ جہاں اس کے جانے کے اس کی یاد باقی نہیں رہتی۔اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے تو وہ اس کی سنہری یادیں اور کارہائے۔اگر زندگی کی حد کو قدرتی اصولوں کے مطابق جانا جائے تو یہ سفر سات یا آٹھ دہائیوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں ہر سال لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کا جنم ہوتا ہے۔اسی طرح شرح اموت کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ کوئی حادثات کا شکار ہو کر موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ کوئی بیماری کے ہاتھوں مجبور وہ کر مر جاتا ہے۔ کوئی نفسیاتی عوارض کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔کوئی خودکشی کر لیتا ہے۔ کوئی ملک کے دفاع کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتا ہے۔ اس حقیقت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کوئی عمر کی حد پوری ہونے پر جہان فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔آپ سال کے اختتام پر اس بات کی حقیقت جان سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ امسال ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔ وہ اپنا زمینی سفر مکمل کر کے اپنے اپنے عقائد و نظریات کے مطابق رحلت فرما گئے ہیں۔جیسے گزرا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح ہم بچھڑنے والوں کو واپس نہیں لا سکتے۔ انسان اس وقت تک زندگی کی رعنائیوں ، موسموں اور رتوں سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ جب تک اس میں زندگی کا دم ہے۔ اس کے بعد نہ وقت ہے اور نہ مہلت۔ کیونکہ وقت اور زندگی چلے جانے کے بعد واپس نہیں آتے۔ لیکن یہ ایسا سبق ضرور دے جاتے ہیں جو عمر بھر یاد رہتا ہے۔
کیونکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہر ایک چیز کا وقت ہے۔
اسی طرح انسان کی زندگی کی ایک حدود ہے۔اسے کوئی عبور نہیں کر سکتا۔وقت تیزی سے کروٹ لے کر گزر جاتا ہے۔
کیونکہ وہ قانون قدرت کے تابع ہے۔ وہ کسی کا انتظار نہیں کرتا بلکہ ہر انسان کو اس کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ کیوں کہ وقت بہترین عدالت ہے جو ہر کسی کو پورا انصاف مہیا کرتا ہے۔ شکایت کا موقع نہیں دیتا بلکہ ہر کسی کی شکایت دور کر دیتا ہے۔ اگرچہ وقت کے پاس ایسا دل ہے جس کی دھڑکن میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔یہ آج بھی اسی رفتار سے دھڑکتا ہے جو صدیوں پہلے دھڑکتا تھا۔ دنیا کی تاریخ تو ہر روز بدل جاتی ہے۔ مگر انسان نہیں بدلتا کیونکہ اس کے اندر وہی پرانی انسانیت ، وہی شکوک و شبہات ، وہی گلے شکوے ، پرانی رنجشیں اور کدورتیں ، برے تصورات کے جوہڑ، منفی سوچ ، تنگ نظری ، بہروپیا پن ، جنگ و جدل ، غلامی کی تدبیریں ، دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا ، ذہنی انتشار ، ناپاکی ، تاریکی ، وسوسے ، احساس برتری کا خمار ، حاکمیت کی چھڑی جیسے عناصر اس کی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ نئے سال کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا نئے سال کی آمد کا جشن جو قلب و ذہن کو آسودگی بخشتا ہے۔ انسان کی زندگی خیال کی طرح گزر جاتی ہے۔سال گزرتے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ماضی میں کیسے تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات بھی تسلی کا باعث ہے کہ انسان اپنی ذات میں جتنا قدیم ہے۔وہ اسی قدر جدت پسند بھی ہے۔اس کی دلچسپی نے جس قدر دنیا میں تبدیلیاں پیدا کیں ہیں۔ وہ قابل وثوق ہونے کے ساتھ ساتھ فخر کا باعث بھی ہیں۔ آج جدھر بھی نظر دوڑائیں۔ زمانہ ترقی کی منازل طے کرتا نظر آتا ہے۔ بہت دور جانے کی بات نہ کریں بلکہ اگر ایک صدی قبل اپنے حالات و واقعات کا جائزہ لے لیں تو دنیا کی ترقی کی رفتار اور تبدیلیاں خود گواہی دینے لگیں گی۔
امیر و غریب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ نظام کائنات ہے۔ جہاں ہر انسان ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔کیونکہ قومیں اور ممالک بھی ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر نہیں چل سکتے۔ راستے ہموار رکھنے کا ہنر تو ہر کوئی نہیں جانتا۔ نہ ہر کوئی یہاں سائنس دان ہے۔نہ کوئی ڈاکٹر ہے۔نہ کوئی انجینیئر ہے۔بلکہ دنیا میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ موجود ہیں ہیں۔جو مل جل کر دنیا کو خوشیوں کا گہوارہ بناتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس دنیا کی تعمیر و ترقی ان چنیدہ لوگوں کی بدولت ہے جن کی محنتوں اور دریافتوں نے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ یہاں ہر کسی نے اپنی اپنی حصے کی شمع جلائی ہے۔ محنت شاقہ سے کام کیا ہے۔ علم و ادب سے محبت رکھی۔
تاریکی کی قوتوں سے جنگ لڑی ہے۔ انسان تو سبھی ایک جیسے ہی ہیں۔ان کے خون کا رنگ بھی ایک جیسا ہی ہے۔ اخلاقیات بھی ایک جیسی ہے۔ محنت کا پیمانہ بھی ایک جیسا ہے۔ قدرت کی عطا کردہ نعمتیں بھی ایک جیسی ہیں۔ مواقع بھی یکساں ہیں۔ اگر کوئی چیز فرق ہے تو وہ ہمارے عقائد و نظریات جو ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں۔ انہیں ماننا یا نہ ماننا ہر انسان کا نجی معاملہ ہے۔ یہ خدا اور اس کے درمیان ایک عہد ہے ۔وہ اسے توڑتا یا رد کرتا ہے۔ یہ اس کی ثواب دید ہے۔ہر کوئی اپنے اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا پابند ہے۔ البتہ میں ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ مذاہب امن ، محبت ، مساوات ، انصاف ، رحم ، حقوق اور بھائی چارے کی تلقین ضرور کرتے ہیں۔یہ ہماری فطرت کا فتنہ ہے کہ ہم انہیں کس حد تک اپناتے یا ٹھکراتے ہیں۔ امسال بھی سال نو کا سورج اسی آب و تاب کے ساتھ طلوع ہو گا، غروب ہوگا۔ پھر یہی سلسلہ سال بھر تواتر و تسلسل کے ساتھ اپنی روایت کا بھرم رکھے گا۔ گزشتہ سالوں کی طرح ہر سال کے اپنے اثرات و ثمرات ہوتے ہیں جو اس کی ہمہ گیریت ، عالمگیریت ، معجزات ، نشانات اور آفاقی صداقتوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ شفق کی کرنیں غروب ہونے سے پہلے اپنی زندگی کا ایک بار جائزہ ضرور لے لیں
کہ میں نے اب تک کیا پایا کیا کھویا؟
میرا گزشتہ سال کیسا رہا؟
میں نے کون سے دکھ اٹھائے؟
میں نے کن باتوں میں ترقی کی؟
کون سی آزمائشوں نے میرا تعاقب کیا؟
کون سی کامیابیاں میرے ماتھے کا جھومر بنیں؟
انسانیت کے پر چار لیے کون سا بڑا کام کیا؟
میرے منصوبوں کی بنیاد کن حقائق پر مبنی تھی؟
میں اپنے کاروبار یا نوکری سے کتنا مطمن ہوں؟
کیا میری زندگی میں فلاح و بہبود کا منصوبہ آباد ہے؟
میرے خوابوں اور سپنوں کی تعبیر کا معیار کیا ہے؟
میں کس سمت محو سفر ہوں؟
میرے ارد گرد حالات و واقعات کی کون سی پیش گوئیاں ہیں؟
آخر میں یہ سوال اپنی ذات سے ضرور کر لیں کہ میری زندگی کیسی ہے؟ کیا خدا کی منشا کے مطابق ہے یا نہیں ۔
اگر میں نے زندگی کے اتنے برس گزارنے کے باوجود اپنی ذات میں تبدیلی پیدا نہیں کی تو میں دنیا کا سب سے بڑا کم بخت ہوں۔ جس نے تبدیلی کے لیے اپنی زندگی خدا کو پیش نہ کی۔ اگر میں آج تک بے پھل ہوں تو اس کی کوئی وجہ تو ہے جس نے میرے قلب و ذہن کو جکڑ رکھا ہے۔
ہو سکتا ہے میں نے آج تک اپنے خدا کو جاننے کی کوشش نہ کی ہو۔لیکن دسمبر رخصت ہونے سے پہلے پہلے ہمیں یہ بات ضرور جان لینی چاہیے کہ “سال بدلے زندگی بدلے” جیسے عمل سے غسل لینا میرا ذاتی فرض ہے۔میں تبدیلی کے اشارے پر عمل کروں گا۔ کیونکہ زندگی تو ہرے بھرے درخت کی مانند ہے۔ اگر اسے وہ عوامل میسر نہ آئیں جو نشوونما کے مدارج میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔تو میں اس درخت کی مانند ہوں جو بہت جلد سوکھ جاتا ہے۔پھر اسے کاٹا اور آگ میں جھونکا جاتا ہے۔ انسان کو دار فانی ہونے سے پہلے تبدیلی کے مقصد کو پا لینا چاہیے۔ محبت کا موسم آباد کر لینا چاہیے۔ ہاتھ میں محنت کی چابی تھام لینا چاہیے۔ دوسروں کی عدالت کرنے کی بجائے اپنا احتساب کر لینا چاہیے۔اپنی جسمانی اور روحانی زندگی کو ضرور پرکھ لینا چاہیے تاکہ زندگی کا حاصل ضائع نہ ہو جائے۔کیونکہ جیسے وقت لوٹ کر واپس نہیں آتا اس طرح زندگی کھو جانے کے بعد واپس نہیں آتی۔تو پھر دیر کس بات کی فیصلہ آج ہی کیجئے اور محفوظ ہو جائیے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔