تحریر: شمیم محمود
جوجھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھائوں میں وہ لوگ جلے ہیں
اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں
نفسا نفسی کے اس عالم میں ہم اتنے مگن ہیں کہ موت جیسی حقیقت کو بھول چکے ہیں پھر اچانک جب کسی عزیز رشتہ دار یا قریبی دوست کے جہاں فانی سے کوچ کرنے کی خبر ملتی ہے تو تھوڑی دیر کے لئے روایتی افسوس اور وہی رسمی گفتگو کرکے اپنی اپنی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں. لیکن کیا کریں دنیا اسی کا نام ہے. کل سکول دور کے ایک دوست نفیس منہاس کا واٹس ایپ پر پیغام آیا جس میں اس نے ہمارے ایک مشترکہ دوست عبدالغفار کی فوتگی کی خبر دی تو سکول اور کالج کا سارا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا. ہم چھٹی کلاس سے ایک ساتھ پڑھتے تھے اور ہماری بنتی بھی تھی. پھر میٹرک کے بعد کالج پہنچےتو نئے لوگ ملے جن میں عامر مرتضیٰ , احسان وڑایچ, اور دیگر شامل تھے. سکول کے ساتھیوں میں سے عبدالغفار, نفیس منہاس, منصور مرزا, محمد جمیل وغیرہ شامل تھے. سکول دور کے دیگر ساتھیوں میں سے عبدالعزیز بھی تھا اگرچہ وہ دوسرے کالج چلا گیا مگر اس کے ساتھ سب دوستوں کا رابطہ تھا بلکہ یوں کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کا اسٹور ہم سب کی آماجگاہ تھی. اکثر ہم سب وہیں جمع ہوتے اور وہ اکیلا ہم سب کو “برداشت” کرتا تھا.
مجھے یاد ہے کہ جب ہم کالج پہنچے تو بی اے فرسٹ ایئر میں جب عامر مرتضیٰ لوگوں سے دوستی ہوئی تو ہمیں (مجھے اور عبدالغفار کو) بہت سی نئی “باتوں” کا پتہ چلا جو ہمارے لئے نئی تھیں اور دوسرے ہم پر ہنستے تھے کہ یہ ابھی تک “بچے” ہیں پھر ہم دونوں نے ملکر سائیکل پر گوجرانوالہ چھاؤنی اور گردونواح کی نئی دنیا کی دریافت کی. بعد ازاں بھی عبدالغفار کے ساتھ گاہے بگاہے رابطہ رہتا مگر کچھ عرصہ بعد میں اس نے رابطہ ترک کر دیا. نفیس نے مجھے بتایا کہ ایک حادثے میں اس کی ریڑھ کی ہڈی بری طرح متاثر ہوئی ہے میں نے کہا میں چکوال چکر لگونگا مگر نفیس کہنے لگا کہ عبدالغفار نے سختی سے منع کیا ہے کہ اسے مت بتانا وہ مجھے اس حال دیکھ نہیں پائے گا. میں نے بھی از راہِ فرار جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا مگر نفیس سے اس کے بارے میں خبر ملتی رہتی.
آج اس کی موت کی خبر نے جہاں دل افسردہ ہوا وہیں اپنی خود غرضی پر شرمندہ بھی ہوا. ہم گردش دوراں میں ایسے پھنسے ہیں کہ چاہتے ہوئے بھی نہیں نکل پاتے اور پھر ہم لوئر مڈل کلاسیوں کے اتنے مسائل ہوتے ہیں کہ کسی کی مدد کرنا تو درکنار ہمارے پاس بات کرنے کا وقت تک نہیں.
آج تو میرے پاس یہ بہانہ ہے کہ میں سات سمندر پار ہوں مگر افسوس کہ دو تین گھنٹے کی مسافت پر رہتے ہوئے بھی نہ جا سکا. نفیس نے بتایا کہ اس کے دو بچے ابھی تک زیر تعلیم ہیں اور گاؤں کا ایک رہائشی انہیں مفت پک اینڈ ڈراپ کی سہولیات فراہم کرتا ہے اور دیگر لوگوں کی مالی معاونت سے گھر کے اخراجات چلتے ہیں. نفیس منہاس نے یہ بھی بتایا کہ عبدالغفار کہتا تھا کہ افسردہ نہ ہوا کرو بلکہ دعا کیا کرو میں جلد قبر میں اتر جاؤنگا. دراصل وہ تنہا رہ گیا تھا کیونکہ میرے جیسے دوست اس کی معاشی حالت جانتے ہوئے بھی اس کے پاس نہیں گئے کہ کوئی مدد نہ مانگ لے مگر وہ خودار تھا اور ہم خود غرض ہیں. زندہ لوگوں کی مدد نہ کرنے کے ہم بہت بہانے تلاش کر لیتے ہیں مگر جب وہ ہم سے جدا ہو جائیں تو ٹسوے بہانے کیا فائدہ.