تحریر: سہیل یوسف
پاکستان میں حالیہ دنوں میں ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ ہوا، جنہیں حکومت کی جانب سے مدعو کیا گیا تھا۔ ذاکر نائیک، جو کہ اسلامی اسکالر کے طور پر جانے جاتے ہیں، انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں میں عوامی اجتماعات میں تقاریر کیں، جن میں سے کچھ مسیحیت اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تنقیدی تھیں۔ ذاکر نائیک پر پہلے ہی ہندوستان میں نفرت پھیلانے اور دیگر مذاہب کے خلاف اشتعال انگیز تقریروں کے الزامات ہیں، جس کی وجہ سے وہ کئی ممالک، بشمول برطانیہ اور کینیڈا، میں ممنوع ہیں۔ پاکستان میں ان کا سرکاری دورہ ہونا اس معاملے کو اور پیچیدہ بناتا ہے۔
مسیحی برادری کے رہنما، جن میں پادری اور بشپ صاحبان شامل ہیں، نے اس موقع پر مکمل خاموشی اختیار کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مسیحی قیادت کو اپنے موقف کو مضبوطی سے پیش کرنا چاہیے تھا اور ذاکر نائیک کی تنقید کا جواب دینا چاہیے تھا، مگر افسوس کے ساتھ، وہ ایسا کرنے سے قاصر رہے۔
نائیک کے ملک چھوڑنے کے بعد، کئی مسیحی رہنماؤں نے پریس کانفرنسز کیں اور ان کے خلاف بیانات دیے، مطالبہ کیا کہ حکومت ان پر پابندی لگائے جیسے دیگر ممالک نے کیا ہے۔ یہ تاخیر سے کیا گیا ردعمل عوام میں ناپسندیدگی کا سبب بنا، اور لوگوں نے اس کو “لکیر پیٹنا” کے مترادف قرار دیا — یعنی ایک معاملے پر تبصرہ کرنا یا اس کے خلاف احتجاج کرنا تب جب وہ موقع ختم ہو چکا ہو۔
جبکہ چرچ کی قیادت اس موقع پر خاموش رہی، کچھ نوجوان مسیحیوں نے ذاکر نائیک کی تقاریر کے دوران ان سے سوالات پوچھے، اور کچھ نے ان سے مباحثہ کی درخواست بھی کی۔ ذاکر نائیک کئی سوالات کے مناسب جواب دینے میں ناکام رہے، لیکن پاکستانی معاشرت میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے باوجود، ان نوجوانوں نے حوصلہ دکھایا اور اس صورتحال کا سامنا کیا۔ یہ بات قابل تحسین ہے کہ ان نوجوانوں نے اپنی کمیونٹی کی نمائندگی کی، جبکہ چرچ کی قیادت، جو عوامی سطح پر زیادہ موثر انداز میں بول سکتی تھی، خاموش رہی۔
پاکستان میں مسیحی برادری کو پہلے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں مذہبی آزادی کے مسائل اور امتیازی سلوک شامل ہیں۔ ایسے میں چرچ کی قیادت کا کام ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی برادری کی نمائندگی کریں بلکہ ایسے مواقع پر ان کے حقوق کی بھی حفاظت کریں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک جیسے شخصیات کا پاکستان آنا اور مسیحیت کے خلاف تنقیدی تقاریر کرنا وہ لمحہ تھا جب قیادت کو واضح اور مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔
نائیک کے دورے کے دوران چرچ کے اعلیٰ حکام کی خاموشی نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر یہ رہنما نائیک کے پاکستان میں موجود ہوتے وقت کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، تو اب ان کی تقاریر اور پریس کانفرنسز کس حد تک اثرانداز ہوں گی؟
یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قیادت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی نمائندگی کرے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرے، خاص طور پر ایسے مواقع پر جب ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ مسیحی برادری کے نوجوانوں کی بہادری کے باوجود، یہ واضح ہے کہ چرچ کی قیادت نے اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔
اس ساری صورتحال کے بعد، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مزید بیانات اور کانفرنسز آ سکتی ہیں، لیکن اس کا نتیجہ وہی ہوگا جو “لکیر پیٹنا” کی طرح ہے ایک ایسا ردعمل جو بہت دیر سے آتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مسیحی قیادت اپنی برادری کو یقین دلائے کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اور ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں گے، ورنہ عوام کا ان پر اعتماد مزید کم ہو جائے گا۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔