مذہبی اقلیتوں کیلئے مخلوط انتخابات کا مقدمہ اور تاریخی پس منظر

تحریر: طارق محمود غوری

جس موضوع پر بات کرنا مقصود ہے وہ ہمارے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے طریقہ انتخاب اور دوہرے ووٹ کی بات ہے کیونکہ الیکشن کا دور دورہ ہے اور شنید ہے کہ آٹھ فروری 2024 کوجنرل الیکشن معاف کیجئے گا میری مراد یہاں پر عام انتخابات سے ہے ہو ہی جائیں گے اس سلسلے میں مذہبی اقلیتوں کے افراد کچھ تو مایوس ہوتے ہیں کچھ ان کے نام نہاد رہنمادم ٹھوکر میدان میں آجاتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کو مزید گمراہ کرتےہے اگر ان نام نہادرہنماؤں سے اگر پوچھا جائے کہ کیا انہوں نے اس موضوع پر کوئی تحقیق کر رکھی ہے اور وہ اس مسئلے کی نزاکت کا کتنا ادراک رکھتے ہیں تو بس سرسری سی بات چیت کے بعد وہ جذباتیت پر اتر آتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس موضوع پر نہ تو تحقیق ہے اور نہ ہی دلائل ان کو بس اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد قائم کرنا مقصود ہوتا ہے آپنی لیڈری قائم رکھنا چاہتے ہیں

مخلوط انتخابات یا جداگانہ انتخابات بہت ہی حساس معاملہ ہے کیونکہ انتخابات اورخصوصا مخلوط انتخابات ہی ہمیں ایک قوم بنانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں ایک بہت بڑا بے سمت ہجوم آہستہ آہستہ شاید ایک قوم بن سکے۔
اس سلسلے میں میں تاریخ کے جھروکوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے متحدہ ہندوستان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے ایسٹ انڈیا کمپنی جبکہ انگریز نےآہستہ آہستہ آپنے قدم جمانا شروع کر دیے تھے اس وقت متحدہ ہندوستان کے بہت سے ہندو راجہوں نے اور مسلم راجہوں نے ساتھ میں لڑائی لڑی تھی کمپنی رول کے خلاف جن میں رانی لکشمی بھائی نانا صاحب ٹاکیا ٹوپے بیگم حضرت محل انور سنگھ وقت خان ان سب نے بہادر شاہ ظفر کو اپنا کمانڈر ایکسیپٹ کیا تھا بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں جنگ آزادی لڑی جو کہ 1857 میں لڑی گئی جس میں کہ تمام مذاہب کے لوگ جس میں مسلمان ،ہندو ،سکھ، اور دیگر آقوام بھی شامل تھے مل کر اس جنگ آزادی میں حصہ لیا لیکن شومتی ہے قسمت کمپنی جنگ جیت گئی اس جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگرانی چلا گیااور ہندوستان پر تاج برطانیہ کا تسلط قائم ہوگیاانگریز یہ جنگ جیت تو گیا لیکن اس نے یہ بھانپ لیاتھاکہ اگر یہ لوگ اکٹھے رہے تو آگے چل کر وہ ہمارے لیے مشکلات پیدا کرتے رہیں گے اسی سلسلے میں انگریز کا موثر اور ازمودہ فارمولا تقسیم کرو اور حکومت کرو پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے برصغیر کی دو بڑی اقوام ہندوؤں اور مسلمانوں کو الگ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا شروع کر دی۔
سامراجی طاقتوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو یہ احساس دلانا شروع کر دیا کہ وہ اپنے اپنے رہن سہن اور مذہبی رسوم و رواج کی بنیاد پر ایک نہیں بلکہ دو مختلف اقوام ہیں یوں وہ لوگ جو سینکڑوں سال سے اکٹھے رہ رہے تھے دھیرے دھیرے ایک دوسرے کے مذہب کی بنیاد پر دشمن سمجھنا شروع ہو گئے۔

اس جڑت کو توڑنے کے لیے انگریز سرکار نے جس ہتھیار کا استعمال کیا وہ ووٹ ہی تھااسی طرح 1905 میں تقسیم بنگال اور 1906 میں مسلم لیگ کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔

جدا گانہ انتخابات کے لیے سب سے پہلی قانون سازی1909 مشہور مارلے منٹو ریفارمز تھیں اس کے بعد1919میں The Montagu–Chelmsford Reforms زیادہ مختصر طور پر مونیٹ فورڈ ریفارمنس کے نام سے جانا جاتا ہے میں کر دی گئی ۔جس کے تحت یہ قرار پایا تھا کہ جن جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں پر ان کے مسلمان امیدوار ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں اور جن اکثریتی علاقوں میں ہندو اکثریت میں ہیں وہاں پر ہندو ہی ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں یہی لیجسلیشن قانون سازی آگے چل کر متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی بنیاد بنی ویسے تو وہ الیکشن بھی آج کی طرح ایک فرد کا ایک ووٹ کی بنیاد پر نہیں تھے بلکہ اس میں بھی انگریز سرکار کی طرف سے بڑے بڑے زمیندار پراپرٹی جاگیردار ٹیکس دھندگان ہی ووٹ کاسٹ کر سکتے تھے اس طرح سے یہ پہلے ہی ایک سلیکٹڈ طرح کے انتخابات ہی ہوتے تھے اس وقت متحدہ ہندوستان کی قومی اسمبلی میں ان ووٹرز کا تناسب تقریبا تین فیصد اور صوبائی اسمبلیوں میں تقریبا 13 فیصد بنتا تھا جو کہ انتہائی کم تھا اور ایک طرف سے یہ صرف اپر کلاس کی ہی نمائندگی کرتے تھے۔

یوں تو پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے لے کر 1985 تک مخلوط طریقہ انتخابی رائج رہا لیکن 1985 میں ایک فوجی امر ڈکٹیٹر جنرل ضیا نے آپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جہاں اور بہت سارے غلط فیصلے کیے وہاں پر مذہبی اقلیتوں کو بھی قومی دھارے سے نکال باہر کیا اور 1985 میں مذہبی اقلیتوں کے لیے جداگانہ انتخابات کہ مذہبی اقلیتوں کے لوگ صرف مذہبی اقلیتوں کے افراد کو ہی منتخب کر سکیں گے جس کے تحت پانچ انتخابات ہوئے
ان انتخابات کے جہاں بہت سارے نقص تھے شاید آج کانوجوان نہیں جانتا کہ مذہبی اقلیتوں کا بیلٹ پیپر ہی ایک اخبار کے سائز جتنا ہوتا تھا اور حلقہ انتخاب پورا پاکستان ہوتا تھا ۔ کسی بھی انسان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ آج کے اس دور میں بھی پاکستان چاروں صوبوں میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کے پاس جا کر اپنی کمپین ہی چلا سکے ۔عام انتخابات قومی اور صوبائی نشستوں کےنتائج تو دوسرے دن یقینا پورے پاکستان سے موصول ہو جاتے تھے لیکن اقلیتی نشستوں کی گنتی کرنے میں تقریبا سات سے دس دن کا وقت درکار ہوتا تھا اس دوران کسی بھی جماعت کی حکومت قائم ہو چکی ہوتی تھی اور یہ امر خارجز امکان نہیں تھا کہ وہ الیکشن کمیشن اور دوسرے اداروں پر اثر انداز ہو کرمذہبی اقلیتوں کی نشستوں پر اپنے پسندیدہ امیدواروں کو لا سکتے تھےیا کوئی بھی امیرآدمی کسی بھی پارٹی کو بڑی رقم کے عوض وہ نشست خرید سکتا تھا ۔ اس کے علاوہ معاشی نقصانات کا کوئی اندازہ ہی نہیں راقم الحروف نے اس وقت کے کئی کروڑ پتی لاکھ پتی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو الیکشن میں ناکامی کے بعد سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھا ہے ۔

اس لیے مذہبی اقلیتوں کے لیے مخلوط طرز انتخاب ہی بہتر ہے جس کی بدولت کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہو رہی ہیں
جداگانہ انتخابات کو ختم کرنے اور مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے پاکستان کی سول سوسائٹی اور خاص طور پر قومی کمیشن برائے امن و انصاف نے ایک بہت بڑی عوامی آگہی کی ملک گیرمہم چلائی جس کی وجہ سے 2002 میں اس وقت کے صدر مشرف نے مذہبی اقلیتوں کے جداگانہ انتخابات کو ختم کر کے مخلوط طرز انتخاب کو دوبارہ بحال کیا جس کی وجہ سے کہ مذہبی اقلیتیں آہستہ آہستہ قومی دھارے میں شامل ہورہی ہیں۔

تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین جہاں جہاں بھی مذہبی اقلیتوں ہیں کہ گھروں میں ووٹ مانگنے جا رہے ہیں جسے کہ بین المذاہب ہم آہنگی بھی فروغ پا رہی ہے یہ ووٹ کی طاقت ہی ہے کہ جس نے ان پسے ہوئے طبقات کو بھی قومی دھارے میں لا کھڑا کیا ہے اور ان تمام رہنماؤں کی مجبوری بن گئے ہیں کہ وہ ان کے گھروں میں جائیں ۔
اس لیے جداگانہ انتخابات سے بڑا ظلم اور زیادتی کسی قوم کے ساتھ نہیں ہو سکتی اور یہ کہ مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی بجائے ہمیشہ شدید احساس تنہائی کا شکار ہی رکھے گا اس لیے گزارش یہ ہے کہ موجودہ انتخابات جو کہ مخلوط طرز انتخاب ہے کوہی بحال رہنا چاہیے یہ الگ بات ہے کہ اس میں بہتری کی گنجائش ہے اور بہتری کی گنجائش تو بہرحال ہر وقت ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں قومی کمیشن برائے امن و انصاف نے بھی ادارہ برائے سماجی انصاف کی طرف سے پیش کی گئی سفارشات۔

ان انتخابات 2024 میں اقلیتوں کے اہم مطالبات اور دلائل
۔1 قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو آئین اور قومی وصوبائی نصاب میں شامل کیا جائے ۔
۔ 2 آئین پاکستان کے آرٹیکل 22الف پر عمل درآمد کیا جائے تاکہ اکثریتی مذہب کی تعلیم اقلیتی طلباء پر لازم نہ ہو۔
۔3 کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے لئے قانون سازی کی جائے۔
۔4 اقلیتوں کے بذریعہ قانون سازی بااختیار وفاقی و صوبائی کمیشن بنائے جائیں۔
۔5چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس تصدق حسین جیلانی کی 19جون 2014ء کے فیصلے پر عملدرآمدی کمیٹی بنائی جائے جو اپنی عملدرآمدی رپورٹ ہر تین ماہ میں صوبائی و قومی اسمبلی میں پیش کرے۔ کی پرزور حمایت کی ہے قومی کمیشن برائے امن و انصاف بھی سمجھتا ہے کہ یہ سفارشات بہت عملی اور حقیقت پر مبنی ہے اس لیے ان پر من و عن عمل کیا جائے تو مذہبی اقلیتوں کےطرز انتخاب سمیت اور بھی بہت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading