تحریر: وقاص قمر بھٹی

انتہا پسندی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو پاکستان سمیت کئی ممالک کو متاثر کررہا ھے۔ آج انسان ہی انسانوں کا دشمن بن چکا ہے انتہا پسندی کے اس دور میں وہ عظیم لوگ ہوتے ہیں جو انتہا پسندی کو روکنے اور امن و رواداری کا درس دینے میں اپنی پوری زندگی گزار دیتے ہیں انسان نے جب سے اس کرہ ارض پر زندگی کا آغاز کیا تب سے لے کر اج تک مختلف طریقوں سے مختلف طرح کی انتہا پسندی سے نپٹ رہا ہے لیکن یہ انتہا پسندی کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوتی چلی گئی کبھی ذات کے نام پر کبھی رنگ و نسل کے نام پر اور کبھی مذہب کے نام پر انسان، انسانوں کا دشمن بنتا رہا ہے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں امن کا پرچار کرنے والوں نے اپنی زندگیوں کی قربانیاں دی ان کا مقصد آنے والی نسلوں میں حقیقی آزادی جو حقیقی اصولوں پر مبنی ہو کیونکہ حقیقی آزادی کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اس کے ساتھ محبت اور پیار کا جذبہ پیدا کرنا تھا تاکہ دنیا میں سکھ اور چین سے انسان اپنی زندگی بسر کر سکے جب تک انتہا پسندی انسان کی سوچ سے ختم نہیں ہوگی انسان دوسرے انسان کو ختم کرتا ہی رہے گا ہمیں اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس سے نمٹنے کیلئے دور حاضرہ میں کچھ تدابیر پر عمل کرنے کے بعد ہم انتہا پسندی میں کمی پیدا کر سکتے ہیں ۔

تعلیم اور آگاہی
شہریوں کو انتہا پسندی کے خطرات سے آگاہ کریں اور رواداری، افہام و تفہیم اور متنوع نظریات کی قبولیت کو فروغ دیں۔
تعلیمی نصاب جو تنقیدی سوچ اور ہمدردی کو فروغ دیتا ہے اس کو اپنے نصاب میں شامل کریں ۔نصاب کے اندر تمام مذاہب کے بارے میں اگاہی اور انسانیت کے لیے رواداری پیار محبت اور ہمدردی میں ان سب کے پیغام واضح لکھے جائے ۔
عوامی آگاہی مہم چلائی جائے جو انتہا پسندی کے نتائج کو اجاگر کرتی ہے۔
مختلف گروہوں کے درمیان مکالمے اور مباحثے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔

اقتصادی ترقی اور شمولیت
غربت، عدم مساوات، اور اقتصادی اخراج کو حل کرنا پسماندگی اور ناراضگی کے جذبات کو کم کرنے سے انسانوں کے درمیان اس عمل کو کم کیا جا سکتا ھےجو انتہا پسندی کو ہوا دتاہے۔
تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی ۔
سماجی شمولیت اور مساوی مواقع کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سطح پر پالیسیاں نافذ کرنی ہوں گی ۔
اداروں کو مضبوط کرنا
ملک کے اداروں بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ انتہا پسندی کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔
انتہا پسندانہ سرگرمیوں کو روکنے اور ان کا جواب دینے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کو بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
انتہا پسندی سے متعلق مقدمات سے نمٹنے میں عدلیہ کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی تاکہ وہ زادانہ طریقے سے انصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکیں ۔
انسداد انتہا پسندی کے اقدامات پر کام کرنے والی سول سوسائٹی کی تنظیموں کی حمایت کرنا ہوگی۔
شہری کی ذمہ داری
ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ کمیونٹی کو انتہا پسندی سے نپٹنے کے لیے بہترین اقدامات کروائے جائیں اور مقامی کمیونٹیز کو بااختیار بنایاجائے کہ وہ حکومت کے ساتھ کھڑے ہو کر اس مہم میں اپنا حصہ ڈال سکیں ۔
سرکاری ایجنسیوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں، اور مقامی کمیونٹیز کے درمیان شراکت داری کو فروغ دیں۔
سماجی ہم آہنگی اور شمولیت کو فروغ دینے کے لیے کمیونٹی کے زیرقیادت اقدامات کی حوصلہ افزائی کریں۔

“سیاسی اور سماجی شکایات کا ازالہ” سیاسی اور سماجی شکایات کا ازالہ کریں جو انتہا پسندی کو ہوا دے سکتے ہیں
سیاسی پولرائزیشن پر توجہ دیں اور سیاسی شمولیت کو فروغ دیں۔
سماجی انصاف کو فروغ دیں اور بدعنوانی، عدم مساوات اور غربت جیسے مسائل کو حل کریں۔

میڈیا کا کردار
میڈیا کی ذمہ داری ھے کہ انتہا پسندانہ نظریات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ذمہ دار میڈیا رپورٹنگ کو فروغ دینا۔
میڈیا آؤٹ لیٹس کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ متوازن رپورٹنگ کو فروغ دیں اور سنسنی خیزی سے بچیں۔
شہریوں کو ان کے تاثرات پر میڈیا کے اثرات سے آگاہ کرنے کے لیے میڈیا خواندگی کے اقدامات کی حمایت کریں۔

آن لائن انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا
ڈیجیٹل خواندگی کو فروغ دے کر اور آن لائن پلیٹ فارمز کی نگرانی کرکے آن لائن انتہا پسندی کا مقابلہ کریں۔
شہریوں کو آن لائن حفاظت کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کے اقدامات کو فروغ دیں۔
انتہا پسندانہ مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز کی نگرانی کریں۔
انتہا پسندانہ مواد کو ہٹانے کے لیے ٹیک کمپنیوں کے ساتھ تعاون کریں.
یہ چند ایک ممکنہ حکمت عملی ہیں جو پاکستان میں انتہا پسندی سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول سرکاری ایجنسیاں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، سیاسی اور مذہبی لیڈر ،مقامی کمیونٹیز اور افراد شامل ہوں اور ہم سب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم پوری ایمانداری کے ساتھ انتہا پسندی کو ختم کرنے میں اور پاکستان کی ترقی اور بہتری کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالیں ۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading