تحریر: وقاص قمر بھٹی
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات پوری دنیا میں شدید ہو چکے ہیں اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس کے نقصانات اور بھی زیادہ ہیں۔ پاکستان کی معیشت بڑی حد تک زراعت اور قدرتی وسائل پر منحصر ہے، اور یہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے نہ صرف ماحول بلکہ معاشرتی، اقتصادی اور انسانی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ مسائل نہ صرف حکومتی سطح پر حل طلب ہیں بلکہ عام انسانوں اور سوشل سوسائٹی تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہاں درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ فصلوں کے وقت پر نہ پکنے کی وجہ سے کسانوں کو شدید نقصانات کا سامنا ہے، اور ملک میں غذائی قلت کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کا شمالی علاقہ جات گلیشئرز کے پگھلنے کے عمل کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور اس کا اثر زرعی زمینوں اور پینے کے پانی کی فراہمی پر پڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بارشوں کا غیر معمولی انداز اور سیلاب بھی عوامی زندگی اور بنیادی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔پاکستان کے ساحلی علاقے، خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقے، سمندری سطح میں اضافے کی وجہ سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ سمندر کی سطح بلند ہونے کے باعث یہ علاقے سیلاب کی زد میں آ جاتے ہیں، اور یہاں کی آبادی کو نہ صرف زمین کھو جانے کا خطرہ ہے بلکہ یہاں سے نقل مکانی کرنے کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ یہ صورتحال ان علاقوں کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہی ہے، جہاں لوگ ماہی گیری اور دیگر سمندری وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔حکومت کا اس مسئلے سے نمٹنے میں کردار بہت اہم ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں ماحول دوست پالیسیاں بنانا اور ان پر عملدرآمد کروانا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ حکومت کو ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنانا ہو گا۔ صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت کو صنعتی شعبے میں جدید ماحول دوست ٹیکنالوجی کا فروغ دینا ہو گا تاکہ آلودگی کو کم کیا جا سکے اور ماحول کو بہتر بنایا جا سکے۔ماحولیات کی وزارت کو مزید فعال بنانا ہو گا اور عالمی سطح پر ہونے والے ماحولیات کے معاہدوں کی پاسداری کو یقینی بنانا ہو گا۔ حکومت کو اپنے عوامی پالیسیوں میں ماحولیاتی تحفظ کو شامل کرنا ہو گا تاکہ وہ اپنے شہریوں کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ مزید برآں، حکومت کو زرعی اصلاحات کے ذریعے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ کم وسائل کے ساتھ زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔سوشل سوسائٹی تنظیمیں بھی اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہے تاکہ لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے آگاہ ہو سکیں اور ان کے تدارک کے لیے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لا سکیں۔ سوشل سوسائٹی تنظیموں کو حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے مضبوط اور مؤثر قوانین بنائے اور ان پر عملدرآمد کرے۔ ان تنظیموں کو شجرکاری مہمات، توانائی کی بچت کے منصوبے، اور ری سائیکلنگ کے اقدامات کو فروغ دینا چاہیے تاکہ عوامی سطح پر ماحول دوست رویے پروان چڑھ سکیں۔عام عوام کو بھی اپنے کردار کا احساس کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ماحول کو بچانے کی ذمہ داری صرف حکومت یا سوشل سوسائٹی پر نہیں ہے بلکہ ہم سب کو مل کر اس کے لیے عملی قدم اٹھانے ہوں گے۔ ہمیں اپنے روزمرہ کے طرز عمل میں تبدیلی لانی ہو گی تاکہ ہم ماحولیات کو بہتر بنا سکیں۔ پلاسٹک کا کم استعمال، پانی کی بچت، توانائی کی مؤثر استعمال اور شجرکاری جیسے اقدامات ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم ماحول دوست رویے اپنائیں گے تو ہم اس چیلنج کا بہتر طریقے سے مقابلہ کر سکیں گے۔شفاعت کے حوالے سے، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں اجتماعی طور پر دعا اور عمل دونوں کی ضرورت ہے۔ دعا ہماری روحانی طاقت ہے، اور ہمیں اللہ سے مدد مانگنی چاہیے، لیکن ساتھ ہی ہمیں عملی قدم بھی اٹھانے ہوں گے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دنیا کو بہتر بنائیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ اور صحت مند ماحول چھوڑیں۔ دعا اور عمل دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور ہمیں ان دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے کامیابی کے ساتھ نمٹا جا سکے۔ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے اور اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کچھ سفارشات دی جا سکتی ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کو ماحولیاتی قوانین کو سختی سے نافذ کرنا ہو گا اور صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دینا ہو گا۔ مزید برآں، عوامی سطح پر آگاہی مہمات چلانی ہوں گی تاکہ لوگ ماحولیاتی مسائل سے آگاہ ہو سکیں اور اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لا سکیں۔تعلیم کے شعبے میں بھی ماحولیاتی مسائل کو نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل میں ماحولیاتی تحفظ کا شعور پیدا ہو سکے۔ سکولوں اور کالجوں میں ماحولیات کے تحفظ کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور عملی قدم اٹھانا ہماری نوجوان نسل کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار کرے گا.ہر انسان کو شجرکاری میں حصہ لینا ہو گا اور پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا ہو گا تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کو کم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ توانائی کی بچت اور پانی کے وسائل کا بہتر استعمال بھی اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اگر ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر ماحولیات کے تحفظ کے لیے عملی قدم اٹھائیں گے تو ہم ایک بہتر اور محفوظ پاکستان کے خواب کو حقیقت بنا سکیں گے۔ماحولیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے جس کا سامنا ہمیں کرنا ہو گا۔ اگر ہم نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو یہ مسئلہ آنے والی نسلوں کے لیے ناقابل برداشت ہو جائے گا۔ حکومت، سوشل سوسائٹی، اور عام عوام سب کو مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر اور محفوظ دنیا چھوڑ سکیں۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔