تحریر: وقاص قمر بھٹی
سینٹری ورکرز پاکستان کی معاشرتی و اقتصادی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو ہماری زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو صاف ستھرا اور قابل برداشت بناتے ہیں، مگر ان کی محنت کے عوض انہیں اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات رنگ نسل اور مذہب کی بنیاد پر بھی ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کا ائین ہر شہری کو برابر کا شہری ہونے کا درجہ دیتا ہے جس میں رنگ نسل اور مذہب سے ہٹ کر ایک شہری کی تعریف کی گئی ہے جو پاکستان کو صاف ستھرا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں وہ بھی انسان ہیں ان کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ ایک عام شہری کا ہے ان کے بھی خاندان ہیں ان کے بھی بچے ہیں ان کے بھی ماں باپ ہیں ان کے بچے بھی ان سے وہ توقعات کرتے ہیں جو عام شہری کے بچے کرتے ہیں ان کے بچوں کو بھی تعلیم صحت لباس خوراک اچھی رہائش اور وہ تمام سہولیات چاہیے جو ایک عام و خاص شہری کو چاہیے آج ان کی مشکلات اور چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے حالات زندگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
مالی مشکلات اور تنخواہوں کا مسئلہ ۔ سینٹری ورکرز کی تنخواہیں اکثر اوقات انتہائی کم ہوتی ہیں، جو ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی مالی مشکلات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان کی تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جاتیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے سینٹری ورکرز کی تنخواہوں میں اضافہ کریں اور بروقت ادائیگی کو یقینی بنائیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف ان کے مالی حالات میں بہتری آئے گی بلکہ ان کی زندگی کی معیار بھی بہتر ہوگا۔
رہائش اور خوراک کی مشکلات ۔ سینٹری ورکرز کی رہائش عموماً غیر معیاری اور ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ انہیں اکثر اوقات خستہ حال جگہوں پر رہنا پڑتا ہے جو ان کی صحت پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ خوراک کی کم یابی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جو ان کی مجموعی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ اس مسئلے کا حل حکومت اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے معیاری رہائش اور خوراک کی فراہمی کے پروگرامز کے ذریعے ممکن ہے۔ ایسی اقدامات سے سینٹری ورکرز کی زندگی میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔
تعلیم اور بچوں کی فلاح ۔سینٹری ورکرز کے بچوں کو معیاری تعلیم کی عدم فراہمی ایک اور بڑا چیلنج ہے۔ کم آمدنی کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اسکالرشپ اور تعلیمی امداد کے پروگرامز متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف بچوں کی تعلیم کی بہتری کے لیے ضروری ہیں بلکہ ان کے مستقبل کی ضمانت بھی ہیں کیونکہ ہمارا ائین اس بات کی تعریف کرتا ہے کہ ریاست ان کے ارٹیکل 25 الف کے مطابق پانچ سے 16 سال کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے گی ۔
قانونی تحفظ اور سیفٹی ۔سینٹری ورکرز کی سیفٹی اور صحت کے حوالے سے اکثر اوقات مناسب قوانین اور حفاظتی اقدامات موجود نہیں ہوتے۔ انہیں مناسب حفاظتی لباس اور سامان فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ان کی صحت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سیفٹی قوانین کو مضبوط کیا جائے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت اور اداروں کو سینٹری ورکرز کے لیے مناسب حفاظتی سامان فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سیفٹی کی نگرانی بھی کرنی چاہیے اور سینٹری ورکر کو مختلف پروگرام اور وینس کے ذریعے یہ تمام ٹریننگ دی جائے جو ان کی زندگی کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے ۔
پیشہ ورانہ تربیت ۔پیشہ ورانہ تربیت کی کمی بھی سینٹری ورکرز کے مسائل میں شامل ہے۔ اکثر انہیں جدید تربیت کے مواقع دستیاب نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان کی مہارتوں میں اضافہ نہیں ہو پاتا۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سینٹری ورکرز کے لیے تربیتی پروگرامز متعارف کرائے جائیں تاکہ ان کی مہارتیں بہتر ہو سکیں اور ان کی کارکردگی میں بہتری آئے۔آئین پاکستان اور قانونی تحفظ آئین پاکستان کے مختلف آرٹیکلز سینٹری ورکرز کے حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ مثلاً، آئین کے آرٹیکل 11 میں جبری مشقت کی ممانعت کی گئی ہے اور آرٹیکل 37 (اے) میں کارکنوں کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ ان قوانین کے تحت سینٹری ورکرز کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں اور سینٹری ورکرز کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں۔
اب دور حاضرہ میں ضرورت ہے کہ سینٹری ورکر جو ہمارے سپر ہیرو ہیں ان کے لیے کچھ کیا جائے تاکہ یہ اپنی زندگی اسی طرح گزار سکیں جیسے ریاست میں ایک عام شہری زندگی بسر کرتا ہے سینٹری ورکرز ہمارے معاشرے کی ایک اہم کڑی ہیں، لیکن ان کی مشکلات اور چیلنجز کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کی مالی حالت، رہائش، خوراک، تعلیم، سیفٹی اور تربیت کے مسائل کا حل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی زندگی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ حکومت، نجی شعبے اور سماجی تنظیموں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ سینٹری ورکرز کے مسائل حل کیے جا سکیں اور ان کے حقوق کی پاسداری کی جا سکے۔ اس طرح ہم ایک منصفانہ اور مساوی معاشرتی نظام کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں۔جبکہ عین پاکستان کے ارٹیکل 25 میں کہا گیا ہے کہ تمام شہری قانون کی نظر میں برابر اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں
اور نہ ہی جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز کیا جائے گا ۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔