ارشد ندیم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال: ایک ماں کی موت، ایک نظام کی ناکامی

 

تحریر: وقاص قمر بھٹی

پاکستان کا آئین ہر شہری کو زندگی کا بنیادی حق فراہم کرتا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے سرکاری ادارے، خاص طور پر صحت کا شعبہ، اس بنیادی حق سے لوگوں کو محروم کر رہا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کے تحت کسی بھی شہری کو زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا، جبکہ آرٹیکل 38(d) ریاست کو عوام کو بنیادی صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا پابند بناتا ہے۔ مگر میاں چنوں کے ارشد ندیم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ بتاتا ہے کہ یہ آئینی ضمانتیں محض کاغذی دعوے بن چکی ہیں۔

چھ دن کا انتظار، دو زندگیاں ختم

چک نمبر 125 پندرہ ایل کی رہائشی میمونہ رفیق چھ دن تک اس ہسپتال کے گائنی وارڈ کے چکر لگاتی رہی، مگر ڈاکٹروں کی غفلت، ہسپتال انتظامیہ کی بے حسی اور ناقص نظام نے اسے اور اس کے بچے کو زندگی سے محروم کر دیا۔ مریضہ کے ورثاء کے مطابق لیڈی ڈاکٹر اور گائناکالوجسٹ ہسپتال میں کم ہی موجود رہتی ہیں، اور مریضوں کو روزانہ “کل آنا” کہہ کر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ میمونہ رفیق کو بھی چھ دن تک یہ جملہ سننے کو ملا، اور بالآخر وہ اپنے بچے سمیت جان کی بازی ہار گئی۔

یہ واقعہ نہ صرف ایک ماں کی موت ہے، بلکہ ہمارے صحت کے نظام پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ ارشد ندیم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جیسے مراکز عوام کے لیے آخری امید ہوتے ہیں، مگر جب وہاں سے بھی انہیں صرف مایوسی اور لاشیں ہی ملیں، تو پھر وہ کہاں جائیں؟

وزیراعلیٰ پنجاب کے دعوے اور حقیقت

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے منشور میں دیہی اور تحصیل سطح پر جدید طبی سہولتیں، 24/7 ایمرجنسی سروسز، اور ماہر ڈاکٹروں کی موجودگی کو یقینی بنانا شامل تھا۔ مگر ارشد ندیم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال جیسے مراکز میں یہ وعدے حقیقت بنتے نظر نہیں آتے۔ اگر ڈاکٹروں کی غیر حاضری اور ناقص سہولتیں اسی طرح جاری رہیں، تو عوام کا ریاست پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔

کیا کیا جانا چاہیے؟

 ڈاکٹروں کی موجودگی یقینی بنائی جائے

تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مستقل موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

جو ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتیں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

 

 سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں

ارشد ندیم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سمیت تمام سرکاری ہسپتالوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں، جو ڈاکٹروں کے کمروں تک لگائے جائیں تاکہ یہ مانیٹر کیا جا سکے کہ وہ مریضوں کے لیے موجود ہیں یا نہیں۔

ان کیمروں کی مانیٹرنگ ایک آزاد کمیٹی یا ہیلتھ کیئر کمیشن کے ذریعے کی جائے تاکہ کسی بھی کوتاہی پر فوری ایکشن لیا جا سکے۔

 

ایمرجنسی اور سرجری سہولیات کی بہتری

ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں جدید ایمرجنسی اور سرجری کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔

گائناکالوجسٹ اور دیگر ضروری ماہرین کی 24 گھنٹے موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔

 

 ہیلتھ کیئر کمیشن کو فعال بنایا جائے

پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کو پابند کیا جائے کہ وہ ہسپتالوں کی نگرانی کرے اور عوامی شکایات پر فوری کارروائی کرے۔
میمونہ رفیق کی موت ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے صحت کے نظام کی ناکامی ہے۔ اگر اس نظام کو درست نہ کیا گیا، تو نہ جانے کتنی اور ماں‌ئیں ایسے ہی دم توڑتی رہیں گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اور دیگر متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ ارشد ندیم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں بنیادی صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں کی غیر حاضری، اور غفلت کے ذمہ داروں کے خلاف فوری کارروائی کریں۔ اگر اب بھی اصلاحات نہ ہوئیں، تو یہ لاپرواہی مزید خاندانوں کو برباد کر دے گی، اور ریاست کے صحت کے نظام پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔کیونکہ ائین پاکستان بھی انسان کو اس کے بنیادی حقوق دیتا ہے

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading