خواتین کا حقِ آواز: عورت مارچ اور سماجی تبدیلی کی حقیقت

 

تحریر: وقاص قمر بھٹی

پاکستان میں خواتین کی شمولیت اور ان کے حقوق کی بحالی ہمیشہ ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اگرچہ آئینِ پاکستان اور مختلف قوانین خواتین کے تحفظ، مساوی مواقع، اور ترقی کی ضمانت دیتے ہیں، مگر عملی طور پر خواتین کو اب بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ سیاست، عدلیہ، صحافت، اور سماجی خدمات کے میدان میں خواتین کی شمولیت حوصلہ افزا ہے، لیکن ان پڑھ اور دیہی خواتین کے لیے مزید اصلاحات اور خصوصی پروگرامز کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی قومی ترقی میں مؤثر کردار ادا کر سکیں۔

“عورت مارچ، جنرل ضیاء کا دور اور لاہور میں احتجاج”
جنرل ضیاءالحق کے آمرانہ دور میں خواتین کے حقوق پر سخت قدغنیں لگائی گئیں۔ 1983 میں جب مارشل لا اپنی انتہا پر تھا، تو لاہور میں 12 فروری کو خواتین نے ایک تاریخی احتجاج کیا۔ یہ مظاہرہ ویمن ایکشن فورم (WAF) اور دیگر سماجی تنظیموں کی قیادت میں ہوا، جس میں خواتین نے حدود آرڈیننس اور دیگر جابرانہ قوانین کے خلاف آواز بلند کی۔ ریاستی طاقت نے ان پر لاٹھیاں برسائیں، آنسو گیس پھینکی، مگر خواتین پیچھے نہ ہٹیں۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے لیے مزاحمت نے ایک نئی شکل اختیار کی۔

اسی جدوجہد کی علامت کے طور پر آج 12 فروری کو “پاکستان ویمنز ڈے” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بعد میں، 2018 میں “عورت مارچ” کی روایت نے جنم لیا، جو ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ یہ مارچ ضیائی آمریت میں شروع ہونے والی اس جدوجہد کا تسلسل ہے، جہاں خواتین اپنے بنیادی حقوق، مساوات، اور آزادیٔ اظہار کے حق میں آواز بلند کرتی ہیں۔

آئینِ پاکستان میں خواتین کے حقوق

پاکستان کا آئین خواتین کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے اور ان کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ چند اہم آئینی دفعات درج ذیل ہیں:

1 آرٹیکل 25
یہ آرٹیکل تمام شہریوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور صنفی امتیاز کو روکتا ہے۔

شق (2) میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست کسی بھی شہری سے صنف کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔
شق (3) میں کہا گیا ہے کہ حکومت خواتین اور بچوں کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے خصوصی اقدامات کر سکتی ہے۔

2 آرٹیکل 34
یہ آرٹیکل ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ عوامی زندگی میں خواتین کی مکمل شرکت کو یقینی بنائے۔
3 آرٹیکل 37(d)
یہ آرٹیکل کام کی مساوی اجرت اور منصفانہ شرائط کی ضمانت دیتا ہے، خاص طور پر خواتین کے لیے بہتر ورکنگ کنڈیشنز پر زور دیتا ہے۔
4 آرٹیکل 38
یہ آرٹیکل سماجی اور اقتصادی انصاف پر زور دیتا ہے اور خواتین سمیت تمام شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

خواتین کی قیادت اور سیاسی کردار

پاکستان کی تاریخ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت نمایاں حیثیت رکھتی ہے، جو ملک کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے۔ اس وقت پنجاب کی وزیرِاعلیٰ ایک خاتون ہیں، جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ خواتین ملک کی اعلیٰ سطحی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
عدلیہ میں خواتین کا کردار

پاکستان میں عدلیہ میں بھی خواتین کی شمولیت بڑھ رہی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بنیں، جو ایک تاریخی کامیابی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف ہائی کورٹس میں بھی خواتین ججز اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

عدالتی نظام میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے متعدد قوانین موجود ہیں، جیسے

تحفظِ خواتین ایکٹ 2006 (Women Protection Act) خواتین کے خلاف تشدد اور زیادتی کے مقدمات میں قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
انسدادِ ہراسیت برائے خواتین ایکٹ 2010 جو خواتین کو کام کی جگہوں پر ہراسیت سے بچانے کے لیے بنایا گیا۔
زبردستی کی شادی اور ونی کے خلاف قوانین جو خواتین کو جبری شادی اور قبائلی رسومات کے ذریعے ظلم سے محفوظ رکھنے کے لیے نافذ کیے گئے۔

صحافت اور میڈیا میں خواتین

پاکستان میں کئی خواتین نیوز اینکرز، رپورٹرز، اور میڈیا پرسنز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوں نے مختلف چیلنجز کے باوجود میڈیا کے شعبے میں کامیابی حاصل کی اور معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا۔

سوشل ورک اور انسانی حقوق میں خواتین کا کردار

پاکستان میں کئی خواتین انسانی حقوق اور سوشل ورک کے میدان میں سرگرم ہیں۔ حال ہی میں کرسچن خواتین کو ان کی سماجی خدمات پر ایوارڈز دیے گئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی اپنی خدمات کے اعتراف میں آگے بڑھ رہی ہیں۔

ان پڑھ خواتین کے لیے خصوصی پروگرامز

ان پڑھ اور دیہی خواتین کو قومی ترقی میں شامل کرنے کے لیے حکومت کو درج ذیل اقدامات کرنے چاہئیں:

ہنر مند خواتین پروگرام

سلائی، دستکاری، کھانے پکانے، اور دیگر گھریلو صنعتوں میں مہارت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔

مائیکرو فنانس اسکیمز

ان پڑھ خواتین کو کاروبار شروع کرنے کے لیے آسان قرضے دیے جائیں تاکہ وہ معاشی طور پر خود مختار بن سکیں۔

 ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز

خواتین کو مختلف شعبوں میں مہارت دے کر روزگار کے قابل بنایا جائے۔

 دیہی خواتین کے لیے منصوبے

زراعت، لائیو اسٹاک، اور چھوٹے کاروبار کے لیے خصوصی منصوبے بنائے جائیں۔

حکومتی اداروں کا کردار اور سالانہ پروگرامز

پاکستان میں خواتین کی حوصلہ افزائی اور ان کی کارکردگی کو تسلیم کرنے کے لیے حکومتی اداروں کو ہر سال خصوصی تقریبات اور پروگرام منعقد کرنے چاہئیں، جن میں

 “وومن ایکسیلینس ایوارڈ”: ہر سال مختلف شعبوں میں بہترین کارکردگی دکھانے والی خواتین کو ایوارڈ دیے جائیں۔

 سرکاری و نجی اداروں میں خواتین کے لیے سالانہ فیسٹیول: جہاں انہیں اپنے ہنر اور کام کو نمایاں کرنے کا موقع ملے۔
ان پڑھ اور محنت کش خواتین کے لیے خاص ایوارڈز: تاکہ ان کی محنت کو بھی سراہا جا سکے۔
“ویمن ان لیڈرشپ کانفرنس”: جہاں کامیاب خواتین اپنی کہانیاں شیئر کریں اور نئی آنے والی نسل کو حوصلہ دیں۔
لیکن اب وطن عزیز میں خواتین کی شمولیت کے بغیر قومی ترقی ممکن نہیں۔ آئینِ پاکستان خواتین کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے، لیکن عملی طور پر انہیں مساوی مواقع دینے کے لیے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان پڑھ خواتین کے لیے خصوصی پروگرامز، سرکاری اداروں میں سالانہ تقریبات، اور خواتین کو ایوارڈز و حوصلہ افزائی دینے جیسے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ حکومت، نجی ادارے، اور سول سوسائٹی مل کر ایسا نظام مرتب کر سکتے ہیں جو خواتین کو مکمل طور پر مساوی مواقع فراہم کرے۔ وقت آ چکا ہے کہ خواتین کو صرف باتوں میں نہیں بلکہ عملی طور پر برابر حقوق دیے جائیں، تاکہ وہ پاکستان کی ترقی میں ایک مؤثر کردار ادا کر سکیں۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading