تحریر: وقاص قمر بھٹی
پاکستان میں تعلیم کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کیا جاتا ہے، اور آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 25-A اس بات کو ضمانت دیتا ہے کہ ریاست 5 سے 16 سال کی عمر تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی۔ تاہم، اگرچہ بنیادی تعلیم کے لیے کچھ اقدامات کیے جا چکے ہیں، اعلیٰ تعلیم کے لیے اب بھی کئی اضلاع میں سہولتوں کی شدید کمی ہے۔ ضلع خانیوال بھی انہی اضلاع میں سے ایک ہے، جہاں آج تک ایک مکمل سرکاری یونیورسٹی کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکا۔
ضلع خانیوال، جو کہ پنجاب کے وسطی حصے میں واقع ہے، چار تحصیلوں پر مشتمل ہے: میاں چنوں، جہانیاں، کبیر والا اور خانیوال۔ ان تحصیلوں میں ہزاروں طلبہ و طالبات ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم کا خواب آنکھوں میں بسائے رکھتے ہیں، مگر یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملتان، بہاولپور یا لاہور جیسے بڑے شہروں کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف تعلیمی رکاوٹ کا باعث ہے بلکہ معاشی دباؤ اور سماجی ناہمواری کی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔
ضلع خانیوال میں اگرچہ چند ڈگری کالجز اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے موجود ہیں، لیکن ان میں دستیاب مضامین، تدریسی معیار اور تحقیقاتی سہولتیں مل کر بھی یونیورسٹی کی کمی پوری نہیں کر سکتی ۔ طلبہ اگر سوشل سائنسز، کمپیوٹر سائنس، ایگریکلچر، بزنس، یا دیگر شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں دوسرے اضلاع یا صوبوں کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں قیام، خوراک، سفر اور دیگر اخراجات کئی متوسط اور غریب گھرانوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات باصلاحیت طلبہ مالی مجبوریوں کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
خواتین کے لیے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں بچیوں کو دور دراز شہروں میں اکیلا بھیجنا اکثر ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا اعلیٰ تعلیم کی خواہشمند بیٹیوں کو یا تو تعلیم ترک کرنا پڑتی ہے یا کسی قریبی شہر میں کم معیار والے ادارے سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورت حال خواتین کی تعلیم میں مساوی مواقع کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اگر ضلع خانیوال میں ایک جامعہ قائم کی جائے تو اس کے کئی مثبت پہلو ہوں گے۔ سب سے پہلے، طلبہ کو اپنی رہائش گاہ سے قریب تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا، جس سے ان کی تعلیمی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔ والدین کے لیے بھی یہ سہولت ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ ماحول میں تعلیم دلوائیں گے۔ دوسرا، ایک یونیورسٹی کے قیام سے مقامی سطح پر روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ تعلیمی عملے، ایڈمنسٹریشن، سیکیورٹی، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات کے لیے افراد کی ضرورت ہوگی، جس سے مقامی معیشت کو تقویت ملے گی۔
یونیورسٹی کے قیام سے نہ صرف تعلیم بلکہ تحقیق کو بھی فروغ ملے گا۔ خانیوال کی زمین زراعت کے لیے مشہور ہے۔ یہاں ایگریکلچر، انوائرمنٹ، واٹر مینجمنٹ، اور رورل ڈویلپمنٹ جیسے شعبہ جات میں تحقیقی کام ہو سکتا ہے، جس کے ذریعے مقامی کسانوں اور کاروباری افراد کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے۔ ایک اچھی یونیورسٹی صرف تدریس تک محدود نہیں ہوتی بلکہ وہ معاشرے کے مجموعی فکری، سماجی اور معاشی ارتقا میں کردار ادا کرتی ہے۔
اگر ہم پاکستان میں ترقی یافتہ اضلاع اور تعلیمی نظام کی مثال لیں، تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ جہاں جہاں اعلیٰ تعلیم کے ادارے مضبوط ہیں، وہاں ترقی، خوشحالی اور سماجی استحکام زیادہ نظر آتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، اسلام آباد یا پشاور جیسے شہروں کی ترقی میں ان کے تعلیمی اداروں کا کردار بنیادی ہے۔ اگر حکومت پنجاب اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن سنجیدگی سے خانیوال کی تعلیمی ضروریات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ضلع کو بھی ایک جامعہ کی اشد ضرورت ہے۔
یاد رہے کہ اعلیٰ تعلیم صرف انفرادی ترقی کا ذریعہ نہیں، بلکہ قومی ترقی کی بنیاد بھی ہے۔ اگر نوجوان نسل کو معیاری تعلیم نہیں دی جائے گی، تو وہ بامقصد زندگی گزارنے، روزگار حاصل کرنے اور معاشرتی بہتری میں حصہ لینے سے قاصر رہیں گے۔ خانیوال جیسے ضلع میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو اگر مقامی سطح پر تعلیم حاصل کر کے اپنی مہارتیں اپنے ہی علاقے میں استعمال کریں، تو وہ ضلع کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔
حکومت پنجاب، مقامی سیاسی قیادت، اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ خانیوال میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے فوری اقدامات کریں۔ اگر فوری طور پر مکمل جامعہ کا قیام ممکن نہیں، تو کم از کم کسی سرکاری یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کیا جائے، جسے بعد ازاں ایک مکمل خودمختار ادارے میں تبدیل کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ضلعی انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے زمین، عمارت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔
یہ مطالبہ صرف تعلیم کا نہیں بلکہ ترقی، مساوات اور آئینی حق کا ہے۔ خانیوال کے نوجوان پاکستان کے دیگر علاقوں کے نوجوانوں سے کسی طور پر کم نہیں۔ انہیں وہی مواقع فراہم کیے جائیں جو دیگر اضلاع کو حاصل ہیں، تاکہ وہ بھی ایک باعزت، باصلاحیت اور تعلیم یافتہ شہری کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکیں۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔