تحریر: وقاص قمر بھٹی
اج پھر ریاست کی بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا وہ بھی أس دور میں جہاں پر انسانی حقوق کا شعور اور شور دونوں موجود ہیں۔ صدیوں پرانی روایات میں جب عورت کو کسی خاندان کی عزت سے تعبیر کیا گیا، تب سے لے کر آج تک وہ اپنی ذات کی آزادی، شعور اور پسند کے حق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ انسانی تاریخ اس دردناک حقیقت کی گواہ ہے کہ عورت کو ہمیشہ مرد کی ملکیت کے طور پر دیکھا گیا۔ زمانہ قدیم سے ہی عورت کی شادی اس کی مرضی سے نہیں بلکہ خاندان، قبیلے یا جاگیردارانہ مفادات کی بھینٹ چڑھتی رہی۔
مگر جب انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات نے جنم لیا، جب اقوامِ متحدہ کا چارٹر (1948) سامنے آیا، تو دنیا میں پہلی بار عورت کو فرد مانا گیا، اس کے فیصلے کو قانونی حیثیت دی گئی۔ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس (UDHR) کا آرٹیکل 16 اعلان کرتا ہے
> “Marriage shall be entered into only with the free and full consent of the intending spouses.”
یہ انسانی تاریخ کا پہلا باقاعدہ قانونی اعلان تھا جو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کو برابری کی بنیاد پر شادی کا حق حاصل ہے، اور یہ حق کسی مذہب، نسل، زبان یا تہذیب کی بنیاد پر محدود نہیں کیا جا سکتا۔ مگر بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں بھی ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں عورت کی پسند جرم بن جاتی ہے، اور اسے غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے جہاں آئین میں مرد اور عورت کو برابر قرار دیا گیا ہے۔ آئینِ پاکستان 1973 کے آرٹیکل 25 کے مطابق
“تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور مساوی قانونی تحفظ کے حق دار ہیں۔”
جبکہ آرٹیکل 9 کہتا ہے
“کسی شخص کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا، سوائے اس کے کہ قانون اس کی اجازت دے۔”
اگر ایک عورت اپنی پسند سے بالغ عمری میں شادی کرتی ہے تو وہ کسی قانونی خلاف ورزی کی مرتکب نہیں۔ بلکہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 375 اور 496A کے تحت زبردستی شادی، اغوا یا جبر کے ذریعے نکاح جرم تصور کیا جاتا ہے۔ مگر یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر ایک لڑکی اپنی پسند سے نکاح کرے تو بعض اوقات عدالتوں میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی جاتی ہے، اسے خاندان سے کاٹ دیا جاتا ہے، یا بدترین صورت میں قتل کر دیا جاتا ہے اور اس قتل کو “غیرت” کا لبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔
یہاں ہمیں یہ سوال کرنا ہوگا کہ غیرت کا مفہوم کس نے طے کیا؟
کیا ایک باپ کا اپنی بیٹی کو قتل کرنا غیرت ہے؟
کیا ایک بھائی کا بہن کو ماردینا عزت ہے؟
نہیں، یہ غیرت نہیں، یہ مردانہ بالادستی (patriarchy) کے زہریلے تصورات کا تسلسل ہے، جو عورت کو انسان نہیں سمجھتے بلکہ ایک ایسی ملکیت سمجھتے ہیں جس پر صرف مرد کا اختیار ہو۔
یہ تصور نہ صرف انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے، بلکہ آئینی اور اسلامی اصولوں سے بھی متصادم ہے۔
لہٰذا نہ صرف آئین، نہ صرف انسانی حقوق، بلکہ ریاست بھی عورت کو شادی کے انتخاب کا حق دیتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ سماجی رویے ان تمام اصولوں کو روند کر عورت کو خاموشی، اطاعت اور بے بسی کے سانچے میں ڈھالنے پر تلے ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل، گو کہ قانونی طور پر جرم ہے، مگر پاکستان میں “معافی” اور “صلح” کے قوانین کا غلط استعمال اس ظلم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بیشتر مقدمات میں مقتولہ کا وارث جو عموماً خود قاتل ہوتا ہے قصاص و دیت کے تحت معافی حاصل کر لیتا ہے۔
2016 میں “Criminal Law (Amendment) Act” کے ذریعے غیرت کے نام پر قتل کو سخت سزا دینے کا قانون تو بنایا گیا، مگر اس کا اطلاق محدود رہا۔ جب تک پارلیمنٹ اس ظلم کے خلاف مکمل اور ناقابلِ معافی قانونی تحفظ نہیں دیتی، یہ سماجی ناسور ختم نہیں ہو سکتا۔
لہٰذا اب وقت ہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ فوری طور پر مندرجہ ذیل اقدامات کرے
1. غیرت کے نام پر قتل کو مکمل طور پر ناقابلِ ضمانت اور ناقابلِ صلح جرم قرار دیا جائے؛
2. تمام شادی کے مقدمات میں عورت کی گواہی کو فیصلہ کن حیثیت دی جائے؛
3. لڑکی کی رضامندی کو نکاح کا بنیادی جزو مان کر عدالتی نظام میں اسے مرکزی حیثیت دی جائے؛
4. تمام تھانوں میں خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے علیحدہ سیلز قائم کیے جائیں؛
5. میڈیا، تعلیمی ادارے اور مذہبی مراکز کو اس حوالے سے سماجی شعور بیدار کرنے کا پابند بنایا جائے۔
یہ صرف قانونی یا انتظامی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی ضمیر کا سوال ہے۔
جب تک ہم اجتماعی طور پر عورت کی زندگی کو، اس کی پسند کو، اور اس کے خوابوں کو عزت نہیں دیتے، ہم ترقی کے دعوے دار نہیں ہو سکتے۔
یہ کیسی دنیا ہے جہاں ٹیکنالوجی مریخ تک پہنچ گئی، مگر ایک لڑکی کو اب بھی اپنی زندگی کے فیصلے پر قتل کیا جاتا ہے؟
عورت، محض صنفِ نازک نہیں، بلکہ انسانی تہذیب کی بنیاد ہے۔جہاں پر عورت ریاست چلا رہی ہے جو وزیر اعلی اور وزیراعظم کی شکل میں دیکھی جاتی ہے
وہ ماں ہے جو قومیں بناتی ہے، وہ بیٹی ہے جو نسلیں سنوارتی ہے، وہ بہن ہے جو وفا کی علامت ہے، اور وہ بیوی ہے جو مرد کے شانہ بشانہ چلتی ہے۔
اسے جینے کا حق دینا، اس کی پسند کو عزت دینا، انسانیت کی سب سے بڑی پہچان ہے۔مگر یہاں تو پوری کہانی تبدیل ہو جاتی ہے جب ایک پسند کی شادی پر اسے سرعام گولیاں مار کر موت کے کاٹ اتار دیا جاتا ہے کیا یہ قیامت سے کم ھے
اگر ہم واقعی ایک جمہوری، اور مہذب معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہمیں عورت کی آزادی کو تسلیم کرنا ہوگا۔
اور جب تک ایک بھی بیٹی کو صرف اپنی مرضی سے شادی کرنے پر قتل کیا جاتا رہے گا تو معاف کرنا ہم سب قاتل ہیں خاموشی کے، منافقت کے، اور انسانیت کے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔