تحریر: وقاص قمر بھٹی
پاکستان کا آئین جب لکھا گیا تو اس کے الفاظ میں ایک ایسی امید چھپی تھی جس نے آنے والی نسلوں کو ترقی، وقار اور برابری کا راستہ دکھانا تھا۔ انہی امیدوں میں سے ایک آرٹیکل 25-A ہے، جو ہر بچے کو تعلیم کا بنیادی حق دیتا ہے۔ یہ آرٹیکل صرف قانون کی زبان نہیں، یہ معاشرے کے ضمیر کی آواز ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس آواز کو ہم نے ہمیشہ دور کی صدا سمجھ کر نظرانداز کیا۔
ہمارا ماضی اس حقیقت سے بھرا پڑا ہے کہ تعلیم کبھی ہماری اولین ترجیح نہ بن سکی۔ ایک طرف بڑے بڑے وعدے، دوسری طرف بجٹ کی کمی، ٹوٹے ہوئے اسکول، خستہ حال عمارتیں، اور وہ ہزاروں بچے جو کتاب کی خوشبو سونگھنے سے پہلے ہی مزدوری کے دھویں میں کھو گئے۔ دیہات میں صبح سویرے بھٹے کی راکھ اٹھاتے بچے، یا کھیتوں میں والدین کے ساتھ مزدوری کرتے کم عمر ہاتھ یہ مناظر صرف غربت کی نشانی نہیں بلکہ ہماری غفلت کا ثبوت ہیں۔
آج کے دور میں تعلیم کو آئینی حق ملے برسوں بیت گئے ہیں، مگر عملی صورت اب بھی افسوسناک ہے۔ کئی اسکول صرف کاغذوں میں بہترین ہیں مگر اساتذہ کی کمی، سہولتوں کا فقدان، اور نصاب سے زیادہ امتحان پر فوکس یہ سب مل کر آرٹیکل 25-A کو ایک ادھورا وعدہ بنا دیتے ہیں۔ والدین جب اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کا سوچتے ہیں تو غربت، بے روزگاری، سفر کا خرچہ اور روزمرہ کی جدوجہد انہیں روک دیتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال شدت سے اٹھتا ہے کہ کیا ریاست نے واقعی “مفت اور لازمی” تعلیم کی ذمہ داری پوری کی؟
مستقبل کا نقشہ اگر ہم حقیقت کی روشنی میں دیکھیں تو صاف واضح ہے کہ تعلیم کے بغیر پاکستان اپنی نصف صلاحیت بھی استعمال نہیں کر سکتا۔ دنیا علم کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے، اور ہم اب بھی بنیادی حقوق کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والی نسلیں زیادہ غیر محفوظ، زیادہ محروم اور زیادہ پسماندہ ہوں گی۔ یہ محض تعلیمی بحران نہیں، یہ معاشرے کی فکری اور معاشی سلامتی کا بحران ہے۔
تعلیم کے حق کے مثبت پہلو بے حد اثر انگیز ہیں۔ ایک تعلیم یافتہ بچہ نہ صرف اپنی زندگی بدلتا ہے بلکہ پورے گھر کے لیے روشنی بنتا ہے۔ تعلیم ذہن کو آزاد کرتی ہے، شعور بیدار کرتی ہے، انسان کو سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کا حق عطا کرتی ہے۔ تعلیم کا فائدہ صرف فرد تک محدود نہیں رہتا؛ یہ معاشرے کی ثقافت، اقدار اور ریاستی ڈھانچے کو مضبوط بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر ترقی یافتہ قوم نے تعلیم کو ریاستی ترقی کی بنیاد بنایا۔
اس کے برعکس، تعلیم کی کمی کا نقصان نسلوں تک پھیلتا ہے۔ ناخواندگی سیاسی استحصال کے دروازے کھولتی ہے۔ بغیر تعلیم کے شہری آسانی سے دھوکہ کھاتے ہیں، غلط راہوں پر چلتے ہیں، انتہا پسندی کا شکار ہوتے ہیں، اور سب سے بڑھ کر وہ اپنی طاقت اور حق سے ناواقف رہتے ہیں۔ تعلیم نہ ہونا صرف اسکول نہ جانے کا نام نہیں، یہ پوری زندگی کے محدود ہونے کا دوسرا نام ہے۔
آرٹیکل 25-A کو فعال کرنے کے لیے صرف بیان کافی نہیں۔ ریاست کو اپنے تعلیمی ڈھانچے میں سرمایہ کاری بڑھانی ہوگی، اسکولوں کو سہولیات دینا ہوں گی، اساتذہ کی تربیت کو جدید بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا، اور سب سے اہم بات کہ والدین کو معاشی اور سماجی سطح پر سہارا دینا ہوگا تاکہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے دور نہ رکھیں۔ صرف قانون کے ہونے سے حق پورا نہیں ہوتا، اس کے نفاذ کی نیت اور عمل بھی ضروری ہوتا ہے۔
تعلیم اس قوم کی بقا کا سب سے مضبوط ستون ہے۔ اگر یہ ستون کمزور رہا تو پاکستان کا مستقبل خواہشوں کے بوجھ تلے دبا رہے گا۔ آرٹیکل 25-A وہ آئینی چراغ ہے جو جل جائے تو اس ملک کی سوچ، سمت اور شناخت تبدیل ہوسکتی ہے۔ یہ شق قوم کے ہر بچے کو وہ حق دیتی ہے جو اس کا پیدائشی اثاثہ ہے، اور جب ریاست اس اثاثے کی حفاظت کرے گی، تبھی حقیقی ترقی ممکن ہوگی۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔
