عملی سیاست میں اقلیتوں کو شامل کرنے کی عملی مثالیں

 

تحریر: یاسر طالب

ملک کے کمزور طبقات کی معاشرتی, سیاسی اور معاشی ترقی کے لیے جنرل الیکشن خصوصی اہمیت رکھتے ہیں، کیونکہ الیکشن تمام طبقات کو سیاست میں بھرپور حصہ لینے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگر چہ ملکی روایتی سیاسی حقائق تھوڑے مختلف ہیں مگر جمہوریت کی حقیقت یہی ہے کہ کمزور طبقات کو سیاست میں شامل کرنے سے ملک کو ایک مضبوط، متنوع اور بہتر مستقبل حاصل ہوگا۔

لہذا ملک میں مختلف اقلیتوں سمیت کمزور طبقات کو ہماری سیاسی جماعتیں عملی سیاست میں شامل کر کے انھیں سماجی و معاشی تحفظ اور طاقت کا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔خواتین کے سماجی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء میں لازم کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو 5٪ جنرل نشستوں میں پارٹی ٹکٹ دیں۔ اور 2017ء کے بعد یہ دوسرا الیکشن ہوگا جب انتخابی حلقوں میں خواتین انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔

اگرچہ آئین کے آرٹیکل 62کے سیکشن 1کے ب1 میں اقلیتی امیدوار مخصوس نشست کے ساتھ ساتھ ، پاکستان کے کسی بھی انتخابی حلقے سے الیکشن میں حصے لینے کی سہولت دیتا ہے۔ مگر ملکی سیاست (نمائندوں اور ووٹرز)کا موجودہ کلچر اس کو یقینی بنانے میں ابھی رکاوٹ ہے جس کو بدلنے اور معاشرتی قبولیت کو بڑھانے کے لیے سیاسی جماعتیں روایتی سیاست کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں ۔

آرٹیکل سیکشن 51سب سیکشن 6 سی میں مخصوص اقلیتی نشستوں کے لیے انتخابی حلقہ پورے ملک کے لیے ہیں ۔ اس سیکشن میں سیاسی نمائندے کا حلقہ تو لکھ دیا گیا مگر ووٹر کو دیکھیں تو ایک انتخابی حلقے کا ووٹ کیسے ان امیدواروں تک پہنچ کر اپنی مسئلہ پیش کر سکتا ہے۔ اگر یہ تصور کیا جائے ووٹر کا مقامی نمائندہ حقیقی نمائندہ ہے تو ایسے میں امیدوار اور ووٹر کے فرق کو کم کرنے لیے کچھ خصوصی اقدامات کرنا چاہیے۔

اگرچہ سیاسی جماعتیں حکومت میں آکر اقلیتی نوجوانوں کو تعلیمی وظائف، اور سرکاری امداد جیسے پروگرامز میں شامل کرتی مگر یہ عارضی ترقی کے لیے سہارا تو ہو سکتا مگر دیر پا ترقی سیاسی عمل میں شمولیت سمیت قوانین، پالیسز اور مو ثر عملدرآمد کے بغیر ادھوری ہو گی۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصل آباد کے حلقہ پی پی 115 میں نعیم یعقوب گل کو پارٹی ٹکٹ دیا، جو اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کے مختلف مکتبہ فکر کی رائے تھی کہ سیاستی جماعتیں براہ راست اقلیتی امیدواروں کو ٹکٹ دیکر سیاسی قوت دے سکتی ہیں اور طاقت کے ایوانوں کا حصہ بنا سکتی ہیں۔

سندھ میں ہندو گزشتہ کئی الیکشن سے جنرل الیکشن میں حصہ اور جیت حاصل کر رہے ہیں۔مگر اس دفعہ پی پی پی نے کے پی کے میں جنرل الیکشن میں ڈاکٹر سویرا کو پارٹی ٹکٹ دیا ، جس کا ملک بھر سمیت دنیا بھر میں خیر مقدم کیا گیا۔

کسی بھی سیاسی جماعت کا یہ قدم ایک کمزور طبقات کو طاقتور بنانے کی اعلیٰ مثال ہے، ایسے اقدامات ہمیں معاشرتی اور سیاسی اصلاحات کی راہ میں مزید ترقی کی امید دیتے ہیں۔

اس عملی مثال سے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی سیکھنا چاہیے اور اپنے شہریوں مذہب شناخت سے بالاتر ہو کر غیر روائتی تخلیقی طریقوں سے نا صرف عملی سیاست میں شامل کرنا چاہیے بنکہ ان کے معاشرتی، معاشی تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں نے امیدواروں کے ساتھ ساتھ اقلیتی ووٹرز کے ساتھ بھی اپنے منشوروں میں بہت سارے وعدے کیے ہیں، اور ادارہ برائے سماجی انصاف کی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں نے گزشتہ تین حکومتی ادوار میں کوئی خاطر خواہ عمل درآمد نہ کیا ہے۔ اس کا عام تاثر یہی ہے کہ بہترین منشور بغیر عملدرآمد اپنی اہمیت آپ ہی کھو دیتے ہیں۔ اس لیے ضرور سیاسی جماعتیں ووٹ کےساتھ کےساتھ ووٹرز کو بھی عزت دیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading