سیاسی جماعتوں کے منشور میں اقلیتوں سے وعدے

 

تحریر: یاسر طالب

جنرل الیکشن 2024 کی انتخابی تیاری کے مراحل سے گزرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے منشورتحریری شکل میں عوام کو پیش کر دیئے ہیں اور جماعتوں کے سربراہان اپنے انتخابی جلسوں میں منشور کے وعدوں کو تقریری شکل میں دہرا بھی رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ سیاسی جماعت کی طاقت “عوام کی نبض پردسترس” میں ہے۔ سو دیکھیں تو ایک عوام کی ایک طاقت سے تمام سیاسی جماعتیں خصوصاً اقتدار کی جماعتیں واقف ہیں کہ عوام کی تعلیم، سیاسی شعور اور انتخابی عمل میں شمولیت کا تناسب کیا ہے؟ کیونکہ تمام جماعتیں پچھلے 33 سال سے بلا شرکت غیرے عوام پر حکمرانی کرتی رہیں اور جو توجہ اور وسائل جماعتوں نے عوام کی تعلیم، تعمیر اور ترقی پر لگائیں اس واقفیت کی بنیاد پر جماعتوں نے تحریری منشور کی بجائے زبانی منشور اور انتخابی نعروں کو فوقیت دینا مناسب سمجھا۔
حد یہ ہے کہ موجودہ الیکشن میں آج کے دن تک کسی سیاسی جماعت نے تعلیم کے معیار بہتر کرنے کی بات کی ہو، دو کروڑ سکولوں سے باہر بچوں کو ترجیح دینے کی بات کی ہو۔ ایک جماعت ماضی کی موٹر ویز کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہے دوسری اپنے عوامی معاشی معاہدے کا، تیسری اب صرف ہماری جماعت کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہے، چوتھی انصاف، برابر شہریت اور مساوی قوانین کا نعرہ بلند کیا ہوا ہے، باقی پانچویں سے دسویں جماعت مشترکہ طور پر منشور کی بتانے کی بجائے اپنے انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر تقویٰ کیے ہوئے ہیں۔
دو کروڑ بچوں کے بعد 80لاکھ مذہبی اقلیتی آبادی بھی سیاسی جماعتوں کے منشور چند سطروں کے بعد غائب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی نے آرٹیکل25 کے مطابق 41اور 91 کو دوبارہ دیکھتے ہوئے غیر مسلم کی صدر اور وزیر اعظم نہ بننے کی آئینی تفریق کو ٹھیک کرنے کی بات کی، پڑھ کر اور سُن کر دل تو خوش ہوتا ہے مگر دماغ سوال کرتا ہےٓ یہ وعدہ پورے کیسے ہو گا؟
پیپلز پارٹی نے مزید آرٹیکل 20،22اور 36 پر عمل درآمد، مسیحیوں کے شادی اور طلاق کے قوانین، ہندووں کے شادی کے قوانین پر عملدرآمد، ملازمت کوٹے پر عملدرآمد، سپریم کورٹ کے 2014ءکے فیصلے کے مطابق کمیشن قائم بنانے اور پنجاب اور کے پی میں ہندو میرج ایکٹ کے رولز بنانے کی بات کی ہے۔
پی ایم ایل نے مذہب کی جبراً تبدیلی کو روکنےکے لیے اقدامات، شہری سماجی اور مذہبی حقوق کا تحفظ،عبادت گاہوں اداروں اور اثاثوں کاتحفظ، بین الاقوامی پروٹوکول معاہدے کو یقینی بنانا، مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد سے نمٹنے کے اقدامات، اقلیتوں کے مضبوط کمیشن اور شمولیت، اشتراک اور سہولت کو یقینی بنانا جیسے وعدے کیے ہیں۔
ایم کیو ایم نے قائد اعظم کی 11اگست کی تقریر کو آئین کا حصے بنانے، امتیازی قوانین میں ترامیم،نیشنل مینارٹی کمیشن کا قیام، شہریوں کی برابری،جبری شادیوں اورجبری تبدیلی مذہب کی روک تھام،تکفیر کے غلط الزام پر الزام دہندہ کے خلاف ریاستی ایف آئی آر،مذہبی آزادی اور جاب کوٹے میں اضافہ جیسے وعدے کیے ہیں۔
جماعت اسلامی نے اقلیت کا لفظ ختم کر کے پاکستانی برادری کی اصطلاح متعارف کروانا کا منفرد وعدہ اور پی ٹی آئی پسے ہوئے طبقات کے ساتھ اقلیتوں کو اعلی تعلیم دلوانے کا منفرد وعدہ شامل ہے۔
مذکورہ نکات سیاسی جماعتوں کے دساتیر کے وعدے ہیں۔ جو کہ گزشتہ تین حکومتی ادوارکے منشور میں بھی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے منشوروں کا حصے تھے۔ ادارہ برائے سماجی انصاف کی تحقیق “وفاوں کا تقاضا” بتاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں صرف دو فیصد وعدے وفا کر پائی ہیں۔ جس سے سیاسی جماعتوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مگر ایک چیز ہے جو عمل درآمد یقینی بنا سکتی ہے وہ ہے سیاسی عمل میں موثر عوامی شمولیت۔جس کی ایک کوشش اقلیتی فورم پاکستان نے ملک گیر مہم ‘میں بھی پاکستان ہوں’کے ذریعے کی اور ابتدائی نتائج حاصل کیے۔ مزید نتائج کو یقینی بنانے میں بھی مزید عملی اقدامات مثلاً 45 لاکھ اقلیتی ووٹرزکا عوامی نمائندوں سے سوال کرنا، اپنے مطالبات پیش کرنا، سیاسی جماعتوں کو منشور کی بنا پر ووٹ کرنا، بعد از انتخابت پر سیاسی جماعتوں کو وعدے یاد کروانے کے لیے خطوط لکھنا، عوامی اجتماعات کرنا، میڈیا میں تحریریں لکھنا، سماجی پلیٹ فارمز کے ذریعے ارباب اختیار تک اپنی آواز پہنچانا غرض کے عمل درآمدکو یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی آپ کا عمل ہی مدد گار ہوں گے۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading