نوجوان آبادی: اثاثہ یا بوجھ؟

 

تحریر: یاسر طلب

تعلیم، کھیل، سائنس، بزنس ، سیاست،اداکاری اور ٹیکنالوجی میں نوجوان نظر تو آتے ہیں مگر کارکردگی مذہب اور ایک خاص قسم کی مذہبی سرگرمی میں ہی دکھاتے ہیں۔ وہ چاہے سیالکوٹ میں پرینتھا کمار کا قتل ہو، جڑانوالہ میں مسیحیوں کی عبادت گاہوں سمیت بستیاں جلانی ہو ، سرگودھا کی مجاہد کالونی میں نذیر عرف لعزر مسیح کو قتل کرنے کی کوشش ہو اس کا کارخانہ جلانا ہو نوجوان کی کارکردگی غیر معمولی نظر آئے گی اور خاص بات لعزر مسیح کے مقدمے میں خواتین کا نامزد ملزم ہونا اور تشدد کے واقعات میں شامل ہونا شاید صنفی برابری کی ایک مثال ہے ،بھئی ہم پیچھے کیوں رہیں؟۔مذکورہ تین واقعات چونکہ حالیہ تاریخ سے ہیں البتہ پنجاب میں مذہب کے نام پر تشدد کا نہ تھمنا والا سلسلہ شانتی نگر ضلع خانیوال کی تباہی سے شروع ہو کر مجاہد کالونی تک پہنچ گیا ہے ۔مختصر ترین داستان ایسے ہے کہ
مارنے والے مارتے رہے جلانے والے جلاتے رہے
بھڑکانے والے بھڑکاتے رہے فقط بچانے والے خاموش رہے
گزشتہ چار دہائیو ں میں عسکری اور جمہوری حکومتوں نے حسب توفیق ریاستی اور حکومتی امور میں مذہب کو استعما ل کیا ہے، اور حکومتی رویہ دیکھتے ہوئے مذہبی لیڈرو ں نے بھی مذہب کے تحفظ کے نام پر معاشرے میں خصوصاً نوجوانوں کو پر تشدد سرگرمیوں میں بھرپور طریقے سے شامل کیا، حالانکہ 97٪ آبادی مسلمان ہونے کے باوجود سمجھ نہیں آتی کہ اکثریتی مذہب کوعدم تحفظ کس سے ہے؟ مزید اس دوران حکومتوں کی بار بار کی تبدیلی کے نتیجے میں سیاسی عدم استحکام ، حکومتی پالیسیز خصوصاً تعلیمی اور یوتھ پالیسی پر عملدرآمد نہ ہونا اور دن بدن کی معاشی ابتری نے لوگوں کے حالات زندگی کو مخدوش تر کر دیا ہے ۔ اوپر 1979کے بعد سے ریاست پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کی ریاستی پالیسی نے چار دہائیوں میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کی ذہنی پیداوار ایک خاص بیانیے پر کرنے کے لئے بے دریغ ریاستی وسائل خرچ کیے ، ان میں سے اکثریتی بچے کوئی مناسب تعلیم یا ہنر نہ حاصل کر پائے۔ جو نامساعد حالات میں پڑھ سکے ان میں سے 10-20لاکھ نوجوان زائد روشن مستقبل کے لئے دوسرے ممالک میں اعلیٰ تعلیم یاروزگار کے لئے ہجرت کر گئے ہیں ۔ تو جن بچوں کی زندگیوں میں نہ مناسب تعلیم ،ہنر ، روزگار ،آمدنی ، تفریح اور نہ کسی روشن مستقبل کی امید ہے، انہیں جنت کے خواب قدرتی طور اپنا گرویدہ بنائیں گے اور شایدپر تشدد سرگرمیاں جنت کے حصول کے ساتھ ساتھ ان کے لئے تفریح کے فراہم کردہ مواقع ہوں گے۔
۔1981سے 1998 کے درمیان پیدا ہونے والے نفوس کی عمریں حالیہ دنوں میں 30-45سال کے درمیان ہونگی،مطلب امور مملکت عملی طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔اور اسی طرح98 19سے 2017کے دوران پیدا ہونے والوں کی عمریں 18-25 سال کے درمیان ہونگی۔ ملک کی آبادی میں ان پڑھ، بے ہنر اور ایک خاص سوچ کی تعلیم سے مزین نوجوانوں کی تعداد میں اضافے کا رجحان 1980ء کے بعد دیکھنے میں آیا ، جس کی مثال ہے کہ 1981سے 1998 کی مردم شماری میں دیکھیں اکثریتی مذہب کے شہریوں کی تعداد میں 45.98 ملین کا اضافہ ہوا۔ اور سی طرح 1998سے 2017 تک 72.93ملین کا اضافہ ہوا، حالانکہ اس دوران حکومتی سطح پر خاندانی منصوبہ بندی کے منصوبے بھی چلتے رہے ہیں۔ اسی طرح ریاست پاکستان کی جانب سے بچوں کو سکول سے دور اور مدرسے کے نزدیک لیجانے کے اقدمات کیے گئے۔ انہیں اضافی نمبر دئیے گئے، ایک بچے کی حفظ کے بدلے میں پورے خاندان کو جنت کا خواب دیکھایا گیا۔ تعداد بڑھانے کے لیے بچے پیدا کرنے کی تلقین کی گئی، بار با ر ملک میں سیاسی حکومتوں کو معطل کیا گیا کہ کوئی بھی حکومت اپنی پالیسی کا نفاذ نہ کر سکی۔
مجاہد کالونی سرگودھا اور جڑانوالہ واقعہ کا بغور جائزہ لیں تو مہیا کردہ تمام ویڈیوز میں 18-25 سال کے بچے پر تشدد سرگرمیوں پیش پیش نظر آئیں گے۔ اور 25 سال سے زائد عمر کے لوگ زبانی جملوں سے نوجوانوں جذباتی کر تے نظر آتے ہیں۔ پولیس کا امن و اما ن کو قائم رکھنے کا بھی نرالا اصول ہے کہ جب تک جرم واقعہ نہ ہو ، گھر جل نہ جائیں ، بندے قتل نہ ہو جائیں وہ حرکت میں نہیں آتی۔ اب جب پولیس حرکت میں آئے گی تو خود ساختہ ثالثی دلائل دیتے نظر آئیں گے کہ نوجوانوں کی پروفیشنل زندگیوں میں کریمنل ریکارڈ کا اضافہ ہو جائے گا۔ اور حقیقت میں ایسے اثرات نظر بھی آتے ہیں کہ انکے بے چارے والدین ضمانتوں کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں، والدین کے مالی جمع پونجی کا ضیاع ہو رہا ہوتا ہے۔ بہت سے نوجوان شاید اپنی زندگیوں کے چند اہم سال جیلوں میں گزار دیتے ہیں اور نتیجے میں کچھ شاید پروفیشنل کریمنلز بن جاتے ہیں۔
پاکستان میں بڑے فخریہ انداز میں مختلف خیال پیش کیے جاتے ہیں کہ ہماری ایک بڑی قوت نوجوانوں کی آبادی ہے اور یہ ہمارا آنے والا کل ہے ، ملک کی ریڑھ کی ہڈی ، مستقبل کا ستون ، تبدیلی کا شاخسانہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غرض کہ تمام شراکت دار حسب توفیق نوجوانو ں کو زبانی جیب خرچ سے ترقی کا استعارہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔مگر کسی بھی طرح نوجوانوں نے نہ تو فیصلہ سازی میں خاطر خواہ موقع دے رہے ہیں اور نہ ہی اس پوٹینشل کواستعما ل میں لانے کی کوئی خاص تدبیر ہے۔ ہا ں مگر ایک فورس ہے جو، جنت کے خواب اور خاص حالات میں تشدد کو ثواب بتا کر ، نوجوانوں کا پوٹینشل غیر معمولی طور پر استعمال کر رہی ہے۔جو کہ واضح کر رہا ہے کہ اکثریتی موجودہ 18-30سال کا نوجوان اورآئندہ نسل میں بغیر تعلیم ، ہنر اور روزگار کے اڑھائی کروڑ نوجوان ملک کا اثاثہ کم اور بوجھ زیادہ ثابت ہو نگے۔
نوجوانوں کو ریاستی اثاثہ بنانے کے لیے گورنمنٹ کو سنجیدگی دکھانی پڑے گی، زبانی نعروں سے آگے ریاست اور حکومتی سربراہان کوسنجیدہ طور پر شرح پیدائش پر قابو پاکر پہلے سے موجود بچوں اور نئے پیدا ہونے والے بچوں کے لیے معیاری تعلیم ، ہنر ، بزنس انوائرمنٹ، تفریحی مواقع، سپورٹس، روزگار غرض کہ معیار زندگی کو بہتر کرنے کے عملی اقدامات کرکے دکھانے ہوں گے۔ وگرنہ آج تو مذہبی اقلیتیں اس شدت پسندی کی لہر سے جھلس رہی ہیں ، مگر شاید مستقبل قریب میں اکثریتی گروپ کے سیاسی، معاشی طور پر کمزور لوگ ایسے عناصر کی راحت کا سامان ہوں گے۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading