تحریر: یاسر طالب
چھبیسویں آئینی ترمیم کا ارتقائی عمل اور اسکے محرکات کے مقاصد آگے بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کا اولین مقصد تو پورا ہوا کہ ایک چیف کا راستہ روکا جائے اور اپنی مرضی کا چیف لایا جائے۔ سردست راستہ تو رک گیا اور مگرمستقبل کے فیصلے طے کریں گے کہ اپنی مرضی کے جج سے مقاصد بھی حاصل ہوتے ہیں کہ یا پھر سے وہی الزامات دہرائے جاتے ہیں کہ عدلیہ نے پارلیمنٹ کی بے توقیری کر دی، آئین دوبارہ لکھ دیا ، اپنی حدود سے تجاوز کر دیا۔ ویسے اتنی آئینی ترامیم پر بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ہمارے آئین سازوں میں حال اور مستقبل کو جانچنے کی قابلیت نہیں ہے یا ترامیم وقتی حالات کی حد تک کی جاتی ہیں؟
جمہوری تصورات میں گنجائش ہو گی کہ عوام کیساتھ ہونے والے معاہدے میں عوام کی رائے جاننے کا تردد کیا جاتا مگر ہماری جمہوریت میں اتنی گنجائش کہاں کہ اتنی اہم ترمیم میں عوام سے پوچھا جائے ، حالانکہ انہی فیصلہ سازوں نے ایک وقت پر اٹھارویں ترمیم میں خاصا وقت لیکر عوامی رائے کی بنا ء پر تاریخی ترمیم کی تھی، مگر خدا جانے اب کیا عجلت تھی کہ عوام کو رائے دینے کا موقع دینا دور ، آخیر تک ترمیمی مسودے نہیں سامنے آنے دیا گیا ۔ مسودہ پر راضی کرنے کے لئے اپوزیشن جماعت کو بندوق اور تلوار کا تحفہ تو دے دیا مگر مسودہ نہیں دیا ۔عوام کو اور ایسی ایسی دلیلیں پیش کی گئیں کہ عوام کو انصاف ملنا شروع ہو جائے گا، ملک ترقی کرنا شروع کر دے گا، یہ ترمیم مجبوری ہے، نمبرز پورے ہیں مگر پھر بھی مشاورت کر رہے ہیں اور ہمیں اس راستے پر جانا پڑے گا جسے میں پسند نہیں کرتا۔
عوام کو رائے دینے کا موقع ہی کہاں تھا کیونکہ نہ ہی ملک کے طول و عرض میں رائے سازی، نہ عوامی سیمینارز، نہ اکیڈمک گفتگو، نہ بار کونسلز میں ڈسٹرکٹ کی سطح تک گفتگو۔ ایسے میں سوشل میڈیا ہی تھا جہاں پر لوگ سوال کر رہے تھے، تبصرے کر رہے تھے، اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ بہت سارے سوالوں اور خیالات میں ایک بات مشترک چلتی رہی کہ کہ “کوئی ایسی ترمیم ہو جس سے بھوک ختم ہو، عوامی خوشحالی آئی” یعنی ساری ترمیم میں عوام کے لئے کیا ہے؟ مگر وہ سرکار ہی کیا جو عوام کو بغیر ترسائے کچھ دے۔ جیسے کہ اب ستائیسویں ترمیم کا خواب جس کا ابتدائی طور پر محور تو عوام ہے مگر واردات کی رات کہ آخری پہر پتہ چلے گا کہ مسودے میں عوام کیلئے کیا ہے؟
چھبیسوں ترمیم کے پراسس میں ہم شاید اسی وہم میں رہتے کہ کسی نے عوامی مفاد کی کوئی بات نہیں کی اور ڈھونڈتے رہے کہ وزیر قانون کی سارے عمل میں دس بارہ گھنٹہ کی تقاریر میں عوام کہیں آتی ہی نہیں۔ کہ کہیں کاش موصوف 30 سیکنڈ کی خاموشی بنا لیتے اور ایم کیو ایم کی تجویز کو اپنی تقریر میں ویسے ہی نظر انداز کر دیتے جیسے مسودے میں کیا ہے۔
وزیر قانون نے جیسے ہی بتایا کہ ایم کیو ایم کی مقامی حکومتوں کو تقویت دینے میں آرٹیکل 140میں ترمیم کی تجویز تھی۔ مگر جو کہا اس کا یہی مطلب بنتا ہے کہ چونکہ عوامی مفاد ہمارا اولین ایجنڈا ہے اور یہ ترمیم عوام کو فائدہ نہیں دے سکتی لہٰذا اس کے لئے پھر کبھی ترمیم کر لیں گے۔ اور اب موجودہ روایت میں ترمیم کرنا کونسا مشکل کام ہے؟ بس جتنے ممبرزکے ووٹ کم ہوں گے، اتنے ممبرز ہی تو اغوا کرنے ہیں۔ لہٰذا اس فضول ترمیم کو پھر کبھی دیکھ لیں گے۔
مبارکوں کے اس موسم میں چھبیسویں ترمیم کو پہلے دو نتائج ملاحظہ کرتے ہیں جس کے مطابق ممکنہ چیف کا راستہ رک گیا اپنی مرضی کے نئے چیف آ گئے ہیں مگر عین اسی وقت سپریم کورٹ میں سات ملازمین کی برطرفی کی اپیل اس بینچ کو بھیج دی گئی جو ابھی بنا نہیں۔ اب دیکھ لیں جن کو انصاف کی فراہمی کے نام پر فیصلے کیے گئے انہیں کیا مل رہا ہے اور جنہوں نے فیصلےکیے انہیں کیا ملا۔ اب اندازہ لگا لیں کہ آغاز ایسا ہے تو انجام کیسے اچھا ہو گا ۔اور اب بھی کوئی انہیں بتا دے کہ “اجالے کیلئے جدوجہد کرتے رہیں مگر اندھیرے سے کبھی دوستی نہ کریں۔”
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔