یوحنا جان

اپریل 16 کی شام بوقت 06:00 بجے کا دعوت نامہ نذیر قیصر معروف ادبی شخصیت کے موصول ہوا ۔ جس کا موضوع 1947 ء کے بعد ادب کے میدان میں اقلیتوں کا کردار اور خدمات ہیں۔ یہاں اقلیتوں سے مُراد غیر مسلم لیا گیا ہے جو کہ ایک تضاد کا نقطہ جنم لے کر ادب کی بے ادبی میرے نزدیک۔ اس موضوع کی نوعیت تو خیر مجھے درُست نہ لگی مگر اِرادہ کیا کہ جاوں گا۔ بروز اتوار شام ساڑھے پانچ بجے افطاری سے قبل میں اپنے ہوسٹل سے نکلا ۔ وحدت روڈ، فیروز پور روڈ سے انارکلی سے ہوتا ہوا مال روڈ پاک ٹی۔ ہاوٴس پہنچا۔ میرے جانے سے قبل ڈاکڑ کنول فیروز اور ان کے ہمراہ دو اور لوگ جن کے نام مجھے معلوم نہ ہیں باہر کھڑے تھے۔ سلام و دُعا ہونے کے بعد بتایا کہ میں بھی ادب کا طالب علم اور ایف۔سی یونیورسٹی سے ایم فل اُردو کر رہا ہوں۔ میرا تحقیق کا موضوع ” نذیر قیصر کی شاعر پر بائبل کے اثرات” ہے ۔ میں نے جب یہ موضوع ان کو بتایا تو ان کے ایک دم تیور بدل گئے۔ اس پہ میرا بولنا پارلیمنٹ کی اپوزیشن کا کردار بن جانا تھا خیر اس بات کو یہاں پر ہی رہنے دیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ ابھی باہر ہی بیٹھے ہیں ؟ وہ بولے بیٹا یہ پاکستان ہے ابھی ان کا پاکستانی وقت شروع نہیں ہوا۔ ان تاثرات کو ابھی میں سمیٹ ہی رہا تھا کہ اُدھر سے نذیر قیصر ہمراہ ان کی اہلیہ عابدہ نذیر قیصر بھی وارد ہوئے اور سامنے لگے کتابوں کے اسٹال پر گمنامی میں کتابیں دیکھنے لگے اِدھر ابھی پاک۔ٹی ہاوٴس کا مرکزی دروازہ بند تھا۔ وقت تقریباً چھ بج کر بیس منٹ کا ہو چکا تھا۔ بہرحال اسی دوران آفتاب جاوید ایک گاڑی سے نکلے جن کے ہمراہ افطاری کا سامان بھی تھا۔ ان میں خربوزہ ، کھجور ، تربوز اور دیگر اشیاء تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے بعد شاپروں کو پکڑے ہوئے میں بھی ان کے ساتھ اوپر چلا گیا ۔ جب یہ کھانے کی چیزیں لے کر اوپر گئے تو اس دوران ایک ہٹاکٹا مرد جو تقریباً پچاس برس کا ہوگا اُس نے سر پر ٹوپی بابائے قائد کے سٹائل کی جس پر پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا تھا اوپر آن پہنچا۔ جس کی متحرک نظر میں گیڈر کی چال نمایاں تھی لیے اِدھر اُدھر دیکھے جا رہا تھا۔ میں ایک آدمی کے ہمراہ میز پر رکھے پھلووں اور کھجوروں کو ڈسپوزل پلیٹ میں ترتیب دینے میں مگن ۔ اچانک اس گیڈر کی نظر اور بے سُر آواز کا چرچا ہال میں گونج اُٹھا پلید پلید پلید ، حرام ، حرام اور حرام ۔ ہم دونوں دیکھنے لگے اس کو کیا ہوا ؟ کوئی دورہ مرگی تو نہیں پڑ گیا۔ وہ ایک دم پھر بولا ” حرام ، حرام ، حرام ” ۔ دایاں ہاتھ پلید ، ناپاک کا درجہ رکھتا ہے ۔ ہم دونوں اپنے کام میں مصروف رہے۔ وہ پھر مُرغ کی بانگ کی طرح بولا پلید پلید پلید ۔ یہ دائیں ہاتھ سے پھل کاٹنا حرام ہے۔

تیور کو سنبھالتے ہوئے جواب دینے کے لیے نظر اُٹھائی تو ساتھ والا کہنے لگا خاموشی سے اپنے کام میں مگن رہیں یہ عقل سے پیدل ہے۔ اُس نے پھر اپنا منہ مارنے کے لیے کہا لیکن مجھ سے ضبط نہ ہوا اور کہا ” اگر یہ پلید ہے تو اپنے ساتھ کیوں لٹکائے ہوئے ہو کاٹ کر پھنیک دو بجائے اس کے کہ تم دو ہاتھ لے کر دوزخ کے وارث بنو۔ اگر یہ ناپاک ہے تو ابھی تک تم نے نماز بھی ادا نہیں کی اور جو کی ہے وہ بھی نامکمل ۔ اگر تم کو یہی خدشہ ہے تو دُعا بھی ایک ہاتھ سے مانگا کرو۔ اگر یہ ناپاک ، ناپاک کا نعرہ ہے تو تم خود اس وقت ناپاکی کی حالت میں ہو۔ خیر ساتھ والا آدمی بولا بھائی جان چُپ رہیں یہ وہ لوگ ہیں جو براہ راست جنت کا ٹکٹ کٹوا کر ماں کے بطن سے نکلے ہیں۔ مطلب یہ کریں تو رام لیلیٰ ہم کریں تو کریکٹر ڈھیلا۔ یہ کریں تو ماشاءاللہ، ہم کریں تو استغفراللہ ۔ خیر چند سکینڈز کے بعد نذیر قیصر ، آصف عمران اور دیگر لوگ بھی وہاں ہال میں داخل ہوگئے۔
بقیہ وقت ہم اپنے کام میں مصروف رہے افطاری کا اہتمام ہوا ، اذان ہو رہی تھی اور وہی کنٹوپ دونوں ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے دُعا مانگ رہا تھا ۔ نہ جانے دُعا کہ بد دُعا مجھے اس کا اندازہ نہیں ۔ خیر اس عمل سے مجھے مستنصر حسین تارڑ کا قول یاد آیا کہ
” ہم وہ قوم ہیں جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے کو گناہ سمجھتے ہیں اگر ان کو یہی لگتا ہے تو دُعا بھی ایک ہاتھ سے مانگ لیا کریں۔ ”
اُس کنٹوپ کو کچھ کہنے کے لیے آگے بڑھنے لگا تو ساتھ والے نے کہا
” مت جانا یہ وہ شرر ہے جو دوزخ کی آگ سے بنا ہوا ہے -”
مجھے ایک دم زور سے قہقہہ لگانے کا جوش ہوا مگر ضبط کرنے کو اولیت دی۔ اس کے عوض مجھے معلوم ہوا کہ آج کا موضوع ” اقلیتوں کا ادب ” کیسا اور کیوں کر ہے۔ ان لوگوں نے تفریق کی انتہاء تو یہاں تک کر ڈالی ہے کہ ادب میں بھی گروپ بندی پروان چڑھا دی ہے حالانکہ ادب تو ادب ہی ہے جو نہ ریاست کا پابند ،اقلیت کا نہ اکثریت کا، نہ کسی ایک خطے کے لوگوں کا تو ادب دو طرح کا کیسے ؟ ان خیالوں نے آج اس نوبت تک بات پہنچا دی ہے کہ ایک خاندان کا بٹوارہ کرنے والے آج فخریہ انداز میں بیٹھ کر نقطہ چینی کر رہے ہیں۔ تنقید کرنے کے لیے علم کا ہونا ضروری ہے جبکہ نقطہ چینی کے لیے جہالت ہی کافی ہے جبکہ یہاں ہر کنٹوپ قائد کی صورت میں تنقید برائے تنقیس کا ماہر ہے جو جہالت کی عمدہ دلیل ہے۔ آج اسی وجہ سے یہ سرزمین نفرت ، تفریق ، ٹھگ بازی اور نیچ خیال لیے بے ادبی کو فروغ دینے کے معاملہ کو ثواب سمجھتے ہیں۔ ایک دن ایک بابے کے پاس بیٹھا تھا تو اس نے کہا ،
” ایتھے چوہدری بڑے نے پر چوہدری کوئی نئیں اے ۔”
املا کے اعتبار سے دُرست لفظ چودھری یہ ہے جبکہ غلط لکھنے کا ایک مقصد ہے۔
اب موضوع کو پرکھنے کا جذبہ ، اس کی بے ادبی کیوں اور کیسے سُن کر واضح ہوتا ہے کہ چوہدری بڑے نے۔
ادب نہ کسی کے باپ کی ملکیت ہے نہ کسی ایک گروہ کی بلکہ ادب برائے زندگی ہے۔ ادب کائنات کا نمائندہ ہے جو زندگی کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس لیے زندہ کی زندگی میں مُردے کا تصور نہیں ہو سکتا۔ آج کا واقعہ ایک بات عیاں کر گیا یہاں نسل انسانی کی آبیاری کرنے کی بجائے کرب ناک ، بربادی کے ٹھیکے دار زیادہ ، مطلب پڑھے لکھے جاہل زیادہ ہیں ۔ افطاری کے بعد وہی کنٹوپ دونوں ہاتھوں سے کھاتا ملا ۔ ان کو صرف الله نظر آتا ہے خُدا نہیں ، تنکا نظر آتا ہے شہتیر نہیں ۔ آخر میں ایک دعویٰ کرتا جا رہا ہوں جس دن اقلیتوں کے ادب والا نظریہ ختم کر دیا گیا تب حقیقی آزادی ، ادب کا ادب ، الله اور خُدا بھی نظر آئے گا۔
جب سے اس تضاد نے ادب کو نیچا دکھانے کی ٹھانی ہوئی ہے بے ادبی نے پروان چڑھ کر خاندان کا بٹوراہ کردیا چاہے 1947ءکا ہو یا 1971 ء یا پھر مستقبل قریب میں کوئی ایسا واقعہ۔

 

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading