تحریر: یوحناجان
انقلاب کا لفظ ہر سماعت اور چشم کی ضرورت و تمنا ہے۔ ہر بدلتے دن کی ضرورت ، ہر بدلتی رُت کی آس ، تبدیل ہوتے چہرے کی حسرت اور کئی بدلتے ہوئے نظریات کی ساکھ ہے۔ سوچ ، افکار ، حرف سے لے کر طویل تحریر تک اس عزم کے خواہاں ہیں کہ زندگی میں انقلاب آنا چاہیے مگر آنے کے لیے ہی کہتے ہیں اس کی تیاری اور خوش آمدید کے لیے کوئی ترتیب نہیں۔ مطلب جب تضاداتی صورت حال ہو تو پھر انقلاب نہیں سیلاب آتے ہیں۔ جو سارا کچھ بہا کر صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتا ہے رہتا صرف نام حق کا۔ پھر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر مقدر کے سکندر پر قنوطیت کے پُل باندھتے ہیں۔
انقلاب ضمیر کی گرج سے مدعو ہوتا ہے۔ انقلاب خواب کی کشش سے دکھائی دیتا ہے پر قدم بڑھانے سے قریب آتا ہے۔ جوش و جذبہ سے خوف کھاتا ہے۔ پختہ عزم سے ڈرتا ہے۔ اس گھبراہٹ کا خوف اُس کو گلے میں رسی ڈال کر لے آتا ہے۔ انقلاب قدم بہ قدم ساتھ رہتا ہے بشرطیکہ ارادہ مضبوط ، خیال کی وسعت ، محنت کا ولولہ ، انسانیت کا نعرہ ، حقیقت کی تلاش اور وقت سے دوستی توانا ہو ۔ یہ سارے مل کر انقلاب کو آواز دیتے ، اس کو آگاہ کرتے ، رہتی دنیا تک گواہ ، ایک کی بجائے گیارہ کا عدد بن جاتے اور ماضی سے آگاہی دے کر مستقبل سے ملواتے۔
جب ایک وقت میں اتنے دوست ہوں ، دوستی نبھانے کا عزم ہو ، جان دینے تک وفاداری ہو تو زمین کھود کر بھی انقلاب باہر نکالا جا سکتا ہے۔ ہواوں کا رُخ بدل کر پکڑا جاسکتا ہے۔ لفظ و افکار کی دنیا میں شعور اور شور کا فرق جان کر دشمن کے منہ پر طمانچہ مارا جاسکتا ہے۔ ایک دن انھی باتوں پر تحقیقی وار کر رہا تھا کہ قلم نےسلسلہ شروع کیا ۔ ابھی چند سطریں لکھی تھیں کہ قلم نے رفتار تیز کرنا شروع کی۔ میں نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے لیے قلم سے درخواست کی تو اس نے بتایا کہ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت موضوع ” انقلاب ” ہے۔ خود میرے ساتھ ہم سفر بن کر آیا ہے۔ اب ایک نہیں گیارہ ہیں ۔ تو سفر میں مزہ دوبالا اور گفتگو میں وسعت و تیزی آگئی ہے۔ میں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس نے ایک دم قبول کیا۔
اب ہماری بات چیت شروع ہو چکی ہے تم نے غور سے سُننا ہے۔ انقلاب بڑا ہی متحرک اور وفادار دوست نکلا ہے۔ میں نے قلم کو آزادی دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھنا جو بات ہو مجھے بتانا کیونکہ میں بالکل خاموش تمھارے ساتھ ساتھ ہوں۔ سفر جاری رہا قلم اور انقلاب کی باہم گفتگو کا لہجہ آہستہ مگر باہوں میں باہیں ڈال کر چل رہے ہیں۔
قلم کا پوچھنا کہ تم میرے دوست ہو صرف اس بات کا گمان دور کرو کہ تم کس طرح دوسروں کی زندگی میں آکر انقلاب برپا کرتے ہو؟
اتنی بات کہ وہ چاروں طرف دیکھتے ہوئے بولا میری بات دھیان سے سُنو جہاں آگے بڑھنے کے ارادے پختہ ہوں میں وہاں ضرور ہوتا ہوں۔ جہاں اتحاد ہو بھاگ کر جاتا ہوں۔ قلم نے سر اُٹھاتے ہوئے کہا –
” جہاں سے گزر میرا اور تمھارا ہو رہا ہے وہاں تو سیاسی ، مذہبی بڑا اکٹھ ہے لیکن اس کے باوجود تمھاری عدم موجودگی ہے۔”
انقلاب نے سر کُھجاتے ہوئے نظر اُٹھائی اور کہا۔
” جناب یہی تو یہاں کے لوگوں کا وہم ہے۔ یہ لوگ اپنے زہنوں ، خیالوں میں دوزخ کی آگ لیے ہیں۔ بغل میں چُھری ہے جہاں موقع ملا کاٹ کر الگ کر دیا۔ یہاں موچی ، نائی ، دھوبی ، قصائی ، بھنگی ، حلوائی کا یہی مسئلہ ہے۔ ان سے نکل کر باہر آجائیں تو مذہبی تفریق سر پکڑ لیتی ہے۔ یہاں کام نہ چلے تو فائزہ کریم بیچ میں آ کر کالے گورے کی تمیز کرنے لگ جاتی ہے۔ بات یہاں نہیں تو زبانوں کے تضاد کا نقطہ عروج کو چُھوتا ہے۔ “
قلم نے چپکے سے پلکیں اُٹھائیں تو پھر انقلاب مخاطب ہوا کہ بتاو۔۔۔۔۔۔
” تم کس سے ڈرتے ہو؟ “
” جواب تو کافی مشکل ہے ہاں میں یہ اعتماد سے کہتا ہوں جہاں پر محنت کا جوش اور درست سمت کا تعین ہو وہاں پر میری مجبوری ہے جانا کیوں کہ یہ میرے اولین فرائض میں شامل ہے۔
میں خود اس بات کی تلاش میں ہوتا ہوں جہاں فرد سے لے کر قوم تک ایک مفاد کے خامی ہوں ، حقیقت کے پُجاری اور زندگی میں کچھ کر دکھانے کا عزم ہو میں ان کا دوست بن کر ساتھ ہو جاتا ہوں۔ مجھے اس طرح کے لوگوں سے وفاداری پسند ہے ناکہ اداکاری۔”
قلم نے ایک دم رُکتے ہوئے لمبی سانس لی اور انقلاب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولا ۔
” تم نے مجھ سے راز کی باتیں کی ہیں پر یہ سبھی سے کر لیتے ہو؟ “
اُس نے بڑے غور سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قلم کی طرف دیکھا اور کہا-
” میری بات یاد رکھنا جہاں مندرجہ بالاخصوصیات کے حامل انسان ہوں گے میں کشش ثقل کی طرح پایا جاواں گا۔
رب تعالیٰ نے میرے اندر ایک ایسی قوت عنایت کر رکھی ہے کہ شعور مل جاتا ہے۔”
قلم اور انقلاب کی گفتگو نے مجھے کافی حد تک اپنے اردگرد ہونے والے ماحول کی تغیر پذیری پر دھیان کروایا۔ جب یہ سوچ رہا تھا کہ قلم نے اشارہ کیا خاموش رہنا۔ اچانک قلم نے سوال کرتے ہوئے کہا۔
” انقلاب دوست تم زندگی کو پھر کیا معانی دیتے ہو؟”
“یاد رکھو زندگی ایک باضمیر اور روشن خیال ہونے کا نام ہے۔ جہاں یہ ہوں میں بطور گواہ ہوں گا۔ آج دنیا میں جہاں بھی یہ دونوں ہیں زندگی آرام دہ ، فطرت کی خوبصورتی ، قانون کا بول بالا بلند ہو گا۔ اس کو ہم آہنگی اور وفاداری کہتے ہیں ۔” آخری سوال کا اشارہ کرتے ہوئے قلم نے عرض کی یہ میرا آخری سوال ہے وہ میں کرنا چاہتا ہوں اگر بُرا محسوس نہ کرو ؟
انقلاب نے مسکراتے ہوئے کہا ” جی فرمائیں ۔”
قلم نے کہا ۔
” تم اور میں جس خطے سے اس وقت گزر رہے ہیں باہم گفتگو کر رہے ہیں یہاں کیا مسئلہ ہے ؟ “
انقلاب نے عاجزی سے نیچے جُھکتے ہوئے قلم کے آگے یہ کہنے لگا ۔
” جو کام خُدا تعالیٰ کا ہے جب وہ دھرتی پر رہنے والے لوگ کرنے شروع کر دیں اور جو ان کے ذمہ لگائے گئے ہیں وہ نہ کریں تو پھر مسائل پہ مسائل جنم لیتے ہیں جو میرے نزدیک شرک ہے۔”
قلم میں ان باتوں کو تحریری وجود دے کر تاریخ کا حصہ بنا دیتا ہوں جو نسل در نسل گواہی بن جاتا ہے