تحریر: یوحناجان
افسانہ نگاری کے میدان میں تجریدیت کا لبادہ لیے آصف عمران کا قلم ایک اہم سنگ میل عبور کرتا ہوا ملتا ہے۔ اس سفر کے دوران کئی بٙل کھاتے راستے ، ندی اور نالے جہاں اپنی محسوساتی آنکھ سے اردگرد ماحول کو عصرِ حاضر کے قاری کو قریب لاتا ہے۔ ان بکھری اور مبہم تصویروں میں علامتی و تجریدی اسلوب باریک پگڈنڈی کو ایک منفرد شاہراہ میں بدل کر دو رویہ درختوں کی قطار کے مابین لاکھڑا کرتا ہے جہاں پہ قارئین خود کو برسوں کے تخیل اورفطرت کی رمز میں محوِ تماشائی پاتاہے۔
آصف عمران کا شمار اُردو ادب کے اُن معتبر قلم نگاروں میں ہوتا ہے جو میرے نزدیک سادہ گوئی کا استعمال کرتے تو ہیں پر اس سادگی میں اُن کا اسلوب قاری کو مختلف علامتوں کے مابین کھڑا کرکے تحقیق کرواتا ہے۔ جس سے قاری کے ذہنی پرت کئی لاشعور کی تہیں کھولنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اس کو یوں کہوں کہ آصف عمران کے اسلوب و تحریر میں پڑھنے کے لیے ایک پُختہ ذہن والا قاری ہونا پڑا گا ورنہ وہ بات اوپر سے گزر جائے گی اور وہ فن پارہ اُکتاہٹ کا باعث بن جائے گا۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ ” سائے کے ناخن ” ، لوح تحیر” اور ” اہرام آرزو” منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان سب میں انھوں نے دل جمی اور مضوعاتی تنوع کا رنگ بکھیرا ہے۔ جو بالترتیب علامت نگاری ، تجریدیت ، شعاری اور نیم تاریک حلقوں سے سلاست کی ہیت عیاں کرتے ہیں ۔ اس زمرے میں اُن کے افسانوں کا مجموعہ ” سائے کے ناخن ” میرے ذوق مطالعہ کے لیے پہنچا۔ جو ان کے زبان و بیان اور مشکل پسندی کی عمدہ دلیل ہے۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ پڑھنے سے سمجھ نہ آئی بلکہ کئی دفعہ تحریر کو پڑھنے کے بعد کثیرالاسمتی موضوعات ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔ تحقیق کی گرفت میں لانے کی کوشش بھی کی ۔ ان کا پہلا افسانہ بعنوان ” بے سمت سفر کی خوشبو” میں وہ لکھتے ہیں۔
” لیکن تو ہے کون ۔۔۔۔
میں جو ہوں سو ہوں تیرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میں جو ہوں ۔ تو کیا تیرا کوئی نام نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تُو بھی میری طرح ہی بے نام ہے ۔ بات نام کی نہیں۔۔۔۔۔۔ نام تو کوئی سا بھی ہو سکتا ہے۔تو پھر تمھاری پہچان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میری پہچان چہروں کے نام رکھ کر سمجھتے ہو یہ اُن کی پہچان ہے۔ “
الفاظ کا سرسری جائزہ لے لیا جائے تو کوئی مشکل لفظ نہیں ملا جو میری اور آپ کی نظر سے اوجھل ہوا ہو لیکن تخیل کی فراونی ایسی ہے کہ حُسن تنوع رونما ہو کر قاری پر چاروں طرف سے حملہ آور ہوتا ہے۔ جس کے بعد قاری کو قدم پھونک پھونک کر رکھنے کا عندیہ دیتا ہے صرف یہی نہیں پُختہ تنقید بھی کرنے کا موقع۔ ایک طرف تو موصوف نے تحریری نقطہ نظر سے موضوع طلسماتی رنگ عطا کیا ہے دوسری طرف قاری کا امتحان بھی لیتے ہیں کہ وہ کس حد تک تحقیق و تنقید پر براجمان ہے۔ صرف ایسے ہی منہ اُٹھا کر کتاب پڑھنے تو نہیں نکل پڑا۔ اس لحاظ سے نقطہ چینی ہوتی ہے تنقید نہیں ۔ اب قاری کے لیے بھی امتحان بن کر مصنف کا قلم سامنے ہے۔ وہ بعنوان افسانہ ” روایت کی موت ” میں لکھتے ہیں۔
” ایک ۔۔۔۔۔۔ دو ۔۔۔۔۔۔۔ تین رسموں کے غُبارے میں شرائط کی ہوا بھری جارہی تھی ۔ پوری سات شرطیں بحث کے بند کمرے میں رقص کرتی رہیں اور دولہا میاں گردن جھکائے سب کڑوی کیسلی باتوں کا زہر کانوں کے پیالوں سے پیتا رہا۔ اس کے خوابوں کی تعبیر اندھی ہوتی جا رہی تھی۔ “
میرا بیان کرنے کا موقف ہے کہ الفاظ وہی روزمرہ گفتگو پر مبنی ہیں لیکن مشکل ہے تو اس کثیر المعانی تخیل اور قاری کے مطالعہ پر سوالیہ نشان ہے کہ آیا وہ کس حد تک تحقیق کا دامن پکڑے ہوئے صبر سے کام لیتا ہے دوسری جانب زمان و مکان کے دائرے میں وسعت کا عنصر بھی منظر عام کرتے ہیں کہ نہیں کیوں کہ یہ کائنات اور اس میں چلنے والا لمحہ بہت وسعت کا میدان لیے گزرتا ہے۔ ” اہرام آرزو ” موصوف کا افسانوی مجموعہ جس میں بعنوان ” ہم سُخن ہوئے خواب ” میں وہ اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ملتے ہیں جہاں وہ بیان کرتے ہیں۔
” اس راگ میں چند سانسوں کی تکرار سماعتوں میں گونج بن کر اپنی لٙے پر رقص کر رہی ہے۔مگر میرے اندر بھی خاموشی کا دباو بڑھ رہا ہے اور خواب آلودہ ہوائیں کسی طوفان کو کمرے میں کھنیچ کر لارہی ہیں ۔”
آصف عمران کا سطحی اسلوب اور بینی اسلوب کئی رنگ اور قاری کے لیے لہجوں کا مشاہدہ جنم دیتا ہے۔ جو اُن کے فن کا ہنر بھی عیاں کرتا ہے اور پڑھنے والے کے قلم کی دھار ، تنقید کا دامن تیز کرواتا ہے۔ یہ زمانہ تاریخیت اور سماجیت کے مختلف پہلووں کے عوض بھیس بدل بدل قاری کے ذہن پر نقش مرتب کرتا ہے۔ کہیں براہ راست تو کہیں بالواسطہ ، کبھی تیز تو کبھی مدہم روشنی میں تخلیقی پرواز پر رواں ہے۔ وہ بعنوان ” سائے کے ناخن” میں لکھتے ہیں ۔
“تعمیر و تخریب کا سلسلہ ازل سے شروع ہے مگر دل کی دنیا جب ایک بار اُجڑتی ہے تو پھر نہیں بنتی ۔ اُمیدوں کے پتے شاخِ دل سے گرِ کر دوبارہ نہیں اُگتے۔”
مزید وہ بعنوان افسانہ ” آنے والے زمانے کا سوال ” میں فرماتے ہیں۔
” میں اپنی پسند کے حرف چُن کر سوالوں کی مالا تیار کرتا ہوں اور اس کو گلے میں ڈالنے کے لیے زبان کے بازو آگے بڑھاتا ہوں تو وہ صاف بچ جاتا ہے اور طوقِ سوال میری ہی گردن میں ڈال دیتا ہے ۔”
ان اقتباسات اور حوالہ جات کی روشنی میں تحقیقی نگاہ قاری کے ذہن میں نقش ہو کر پرت در پرت کُھولتے ہوئے ایک تناسب برقرار رکھتا ہے جو تحقیق در تحقیق چلتا جاتا ہے۔ جہاں تک عوام و قارئین کا نقطہ ہے وہ موصوف ان پر دباو اور رُعب براجمان کرتے ہیں تو یہ معاملہ نہیں ہے بلکہ قاری کو تحقیق ، تنقید اور تدوین تینوں سے باہم مربوط ہو کر آگے بڑھنے کا فن بھی ملتا ہے۔ اس کی اہمیت سے شناور کرنے کا موقع ملتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
آصف عمران کی یہ تکینک اصل کھوج لگانے کی منشاء کو تقویت دیتی ہے۔ جو پڑھنے والے کے فن تربیت اور جس موضوع کی ترسیل ہونا ممکن ہو قائل بھی کرتا ہے۔ ان کے اس انداز کا احاطہ ڈاکٹر آغا سہیل ” سائے کے ناخن ” کے ابتدائی اوراق میں بیان کیا ہے۔
” آصف زمانے کے آشوب کا ادراک شدت سے رکھتا ہے اور اُسے فنی سانچے میں ڈھالتے وقت ترسیل اور ابلاغ کا خاصا قائل نظر آتا ہے۔ اس کے بعض معاصرین افسانہ نگار اس قدر واضح نہیں ہیں جتنا وہ خود ہیں تاہم آصف عمران آسان نہیں ذرا مشکل افسانہ نگار ہے جو استعارے کے لامتناہی سلسلے میں اپنے قاری کو خود پھنسا کر خود دُور سے بیٹھا ہوا لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ “
پہلے خود تجربہ گاہ سے ہوکر گزرتا ہے پھر اپنے قاری کو اس تجزیہ گاہ سے گزرنے کا عندیہ دیتا ہے۔ جو تجزبہ سے گزر کر کامیاب ہو کر نکلتا ہے وہ قانونی طور پر نقاد بن کر جھپٹنے اور پلٹنے کا اثاثہ جمع کر لیتا ہے۔ یہی آصف عمران کا اسلوب نقاد کو فرائض سے آگاہی اور مطالعہ کا شوق بھی مختلف کنایوں سے لامتناہی کے باب میں لے چلتا ہے۔