تحریر: یوحنا جان
درد کو درد دینا سب سے بڑا درد ہے اسی جملہ میں ایک درد ناک کہانی ہے اگرچہ صدیوں سے اس کا واسطہ انسان سے نہیں پر خود اس کا کیا ہوا ردعمل ہے۔ جس کی بنا پر ایک پردہ داری کا غلبہ ہے ورنہ یہ آتا نہیں دیا جاتا ہے بولتا نہیں بُلایا جاتا ہے۔ ہنستا نہیں رُلاتا ہے لیکن خاموش ساکن۔
درد کی بھی ایک بڑی داستان ہے جس نے پایا سمجھا نہیں ، دیا نہیں, کیا نہیں، اکڑ دکھائی تو صدا آئی
” اے خاک کے ماخذ دھرتی پر میرے قاصد ساری مخلوقات میں صرف تو ہی ہے جو میرے قریب پر درد بھری دلیل۔ جسے دیا تیرے ہیں۔ پھر آپ سے تم اور تم سے تو کا اثر ہوا۔ درجہ بدرجہ کم تر بن گیا جسے تم چوڑا کہتے ہو۔”
اے نادانو! اے عقل سے عاری کیا کبھی تم نے تدبر بھی کیا؟
جس محبت کی آغوش نے تم کو لوری سُنائی ، تمھاری غلاظت پر غالب آئی ، تم پر اپنی جان بچھائی ، تمھیں اپنی قدرت دکھائی، والدین کے روپ میں جنت دکھائی کیا وہ بھی تمھیں کم تر نظر آئی ؟
تمھاری بدبو جس نے ہے پائی پھر وہاں طہارت کی صدا آئی جس نے تم کو تمیز سکھائی بعد میں وہی چوڑی کہلائی؟
بات غور طلب ہے جب بھی کسی نے گلی محلہ میں صفائی والا پایا کم اعتقادی کی نگاہوں کا جلوہ کہلایا۔ ایک دم حماقت اور بے ضمیری کی آواز زور سے گونجتی ہوئی آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غُل کا غلبہ مختلف انواع کا طمع خام تمام تر عقیدتیں چھوڑ کر بد نیتی کا نحس تہلکہ اپنے ساتھ لشکر وبا لیے پھیلاتا گیا۔ جہاں بھی قدم رکھے خُدا کے ہاتھوں کی تخلیق کا عمدہ انداز میں نقص بیان کیا۔ جس نے مڑ کر بھی دیکھا نہ خرد مندی کا ہاتھ پکڑا۔ ۔۔۔۔۔۔
اس بد نیتی کی سزا اور کیا ہو سکتی ہے کہ صرف پاکستانیوں کے کپڑے اُتار کر تلاشی لی جاتی ہے۔ افلاس اتنی کہ سارا بزرگانہ لباس اُتار دیا ہے۔ حاجت مندی ظاہر کرکے فخر محسوس کرتے ہیں اور شکوہ خُدا سے کرتے ہیں۔ عقیدہ اتنا مضبوط کہ بم بلاسٹ کرکے جنت سے بھی دس کلومیٹر آگے جاتے ہیں اور ایمان اتنا کمزور کہ گھر کا کوڑا گلی میں پھینکتے اور تلاوتِ قرآن سے عدالتوں میں کام شروع کرکے اُسی کتاب پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی گواہی کو دینا ثواب سمجھتے ہیں۔
بیماریوں کے غول در غول آنے کے باوجود کسی طرح باز نہیں آ رہے اور اُلٹا کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی سازش ہے۔
یہی جب اُن کے پاس اپنی فتح مندی کا ہنر لے کر جاتے ہیں تو انگریزی میں قہقہہ لگا کر کہتے جس کا ترجمہ
” آو نادانو! آرام و عیش کے مارو ! عالم کے رنگ میں بے رنگ کرنے والو آو۔”
جب سمجھ نہ آئے تو پھر یہ بھی زور کا قہقہہ لگاتے کہ انگریزی میں تعریف ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی ان کی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں جس کے بدلے منہ تھرتھراتے ہوئے کہتا ہے:
” جب بارش زیادہ آتا ہے تو پانی زیادہ آتا ہے”
سردی کی وجہ سے انڈے دو سو روپے کلو بکتے ہیں۔ میاں جی کی آمد میں اتنے نڈال ہوتے ہیں کہ یادگار پہ ایک یادگار جلسے کا اہتمام ہوتا ہے انعام میں جنت کا ویزہ دیے جانے کا اعلان ہوتا ہے سب کے سب جوش میں آ کر تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیمات کا جنازہ نکالتے ہوئے میاں جی کو تقویت کا سہرا پہناتے ہیں۔
الغرض یہ تمام وہ قصے کہانیاں ہیں جو خیالی پلاو دلوں کو اتنا لُبھاتے ہیں کہ احتیاج و افلاس کی بلا سے نجاتے کی بجائے اسی کو قسمت قرار دے کر مقدر کو بدنام کرتے ہیں جیسے انڈیا والوں کی مُنی بدنام ہوئی۔
ناظرین و سامعین ڈھول کی تھاپ پر اپنی ہنرمندی کا ثبوت دیتے ہیں ان کی پھونکوں سے شفاء مل جاتی ہے جب ایسے حالات میں جوق در جوق ویرانی کو بھی رمز و ایما سمجھیں تو پھر جان لو وہاں تدبیر اور مشورہ ، اصلاح اور محنت پسندی ہمیشہ کے لیے کنارہ کرکے دور کہیں چلی جاتی ہے۔ حماقت روزمرہ کا معمول بن کر درزی اور وردی کے روپ میں قینچی و بندوق لیے دوسروں پر حد نگاہ لیے ملتے ہیں۔
کبھی تدبر کیا تو نے ؟ جس پہ کرنا ہے وہ کیا نہیں اور جس کو لینا اس پہ ہوا نہیں ۔ المختصر تو صرف گُفتار میں اپنے آپ کو ثابت کرنے میں مگن ہے۔ پر حقیقت والے مسلسل سیارا و کردار میں محو ہیں۔ کردار والے کو ظاہری زیبائش کی حاجت نہیں پر تمھیں اس کے لالے پڑے ہیں۔ کیا ہی اقبال نے کہا:
گنوا دی ہم نے ، جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
تمھیں صرف چال بازی ، مداخلت اور خُدا کی کارگردگی میں سازش کرنا ہی آئی۔ جب تم ان حرکتوں میں مصروف عمل رہتے ہو تو یہ جان لو زُلیخا کو اپنی ہی چال نے پھنسا دیا اور جناب یوسف کو بچا لیا۔
تم فطرت کو چکر دینے کے درپے ہو پر تمھیں نوع کے زمانے کا چکر بھول گیا؟ جب وہ اپنے قہر میں آئے تو ایک ہی راہ پر چلنے والوں میں ایک کو بچا لیتا اور دوسرے کو غرق کر دیتا ہے اس کو سمجھنا ہے تو فرعون کی تاریخ دیکھو۔ یوناہ نبی نے چکر دیا تو اُسی چکر میں پھنس کر مچھلی کے پیٹ میں جا پڑا۔ تم بھی انھی چکروں میں بُری طرح پھنس چکے ہو کبھی تدبر بھی کیا تو نے ؟
کھوج لگاو اور دیکھو وہ کون سا چکر تھا جب تو ٹوٹا اور بکھر گیا؟
تم نے 1947 ء میں بقول اپنے ہی آزادی حاصل کی آج لاکھوں لگا کر واپس انھی کی گود میں جا رہے وہ کیوں ؟ ابھی کتنے چکر باقی ہیں اُنھی کو کافر کہتے ہو اور پھر سے انھی کو چکر دے رہے ہو؟ فیض احمد فیض نے کیا خوب تمھارے چکروں کا اطاطہ کیا ہے ۔
اُدھر ایک حرف کُشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو سُن کے اُڑا دیا،جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا