تحریر: یوحناجان
بچپن گاوٴں میں گزرا جہاں پر اقلیتی لفظ بھی بڑی بے تابی سے کہنے اور سُننے کو ملا۔ جس وقت کھانے کے لیے برتن الگ ، پانی پینے کے لیے گلاس الگ حتیٰ کہ نوبت یہاں تک بھی دیکھنے کو ملی کہ ان دونوں میں کوئی میسر نہ ہوتا تو عندیہ دیتے ہوئے روٹی کے اوپر سالن رکھ کر ہاتھ میں اور پانی پینے کے لیے دونوں ہاتھ دُعا مانگنے کے روپ میں آگے کرتے پانی کو اُنڈیل دیتے۔ ایک طرح کا یہ عربی کلچر بھی کہا جاسکتا ہے۔
جیسے جیسے عمر میں بڑھتے گئے نظریہ اور فکر بھی تبدیل ہوتی ہوئی ملی۔ اُس وقت چھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ ان سرگرمیوں پہ شدید غصہ بھی آتا۔ بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ گاوٴں میں جب بھی والد صاحب کے ہمراہ جانا ہوا یہی منظر پایا پر مجال ہے کہ والد صاحب کے ماتھے پر کسی قسم کا ملال یا اس کے متبادل کوئی تاثر پایا۔ کئی دفعہ پوچھا لیکن خاموشی میں بات کو ٹال دیا جاتا۔
والد صاحب محکمہ صحت میں بطور سینٹری ورکر کام کرتے تھے۔ گاوٴں کے سرکاری ہسپتال میں اُن کی ڈیوٹی تھی۔ وہیں بچپن اور لڑکپن کے ایام زندگی گزرے۔ اسی گاوٴں میں سرکاری اسکول جہاں سے میڑک کا امتحان 2010ء میں پاس کیا۔ وہاں بھی یہی کچھ روزانہ کی بنیاد پر ملتا پر کیا کر سکتے والدِ محترم نے کہا تھا کہ کسی سے اس معاملہ میں کچھ نہیں کہنا خاموشی ضروری ۔ ایک طرف غصہ بھی آتا کیا یہ انسانیت کی تذلیل نہیں ؟
کیا ان کے مذاہب میں یہ حکم دیا گیا ہے؟ کیا ان کے خُدا نے یہ کرنے کا کہا ہے ؟ یہ وہ سوال تھے جو دن بدن گردش میں رہتے پر کوئی جواب نہ ملا۔
برتن الگ یہاں تک جب کسی پروگرام میں جانا تو جگہ بھی الگ مختص ہوئی پاتے کہ وہاں ہی بیٹھنا ہے ۔ ان مناظر کو جب دیکھتا تو مزید سوالات جنم لیتے کہ کہاں ہے وہ انسانیت جس کا نعرہ پانچ وقت سپیکر سے دیا جاتا؟ کیا ایسا کرنے سے انسانیت زندہ رہ سکتی ہے ؟ کیا یہ ان کی تربیت میں شامل ہے جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ؟
ایک طرف یہ تناسب کہ برتن الگ رکھے جاتے تو دوسری طرف یہ بھی ان کے منہ سے سُننے کو ملتا کہ مسیحی جھوٹ نہیں بولتے۔ اسکول میں یہ بات عام تھی اکثر میرے اساتذہ بھی اس جملہ کو دُہراتے کہ ” مسیحی جھوٹے نہیں بولتے” جب یہ الفاظ سُننے کو پاتا تو دل باغ باغ ہو جاتا اور ان سوالوں کے جوابات تلاش کرتا جو ذہن میں متحرک تھے۔ اس وقت تو سمجھ نہ آئی لیکن وقت بہت بڑا اُستاد ہے۔
اکثر اسکول میں کسی لڑکے کے بستہ سے کوئی چیز چوری ہوتی تو اُستاد صاحب ساری کلاس کے لڑکوں کی تلاشی لیتے پر میری باری پر وہ خاموشی سے آگے چلے جاتے کئی دفعہ ان کو آواز دے کر کہا گیا سر میری تلاشی بھی لے لیں تو وہ مسکرا کر آگے چلتے جاتے کہتے بیٹھ جاوٴ۔
پھر ایک دم وہی سوالات گونج کر سامنے آتے کہ یہ کیسا دو قومی نظریہ ہے؟
اسی طرح گاوٴں کے سرکاری ہسپتال میں والد صاحب کی ملازمت کے دوران کئی دفعہ جانے کا موقع ملا۔ فارغ اوقات میں ہسپتال جا کر مختلف کاموں میں ڈاکٹرز کے ساتھ کام کرنا اول دستہ سمجھا جاتا۔ ایک دن ڈاکٹر کے پیسے چوری ہوگئے تو تمام اسٹاف کو ڈاکٹر کے کمرا میں مدعو کیا گیا اور اُن سب سے قرآن پاک پہ حلف لیا گیا کہ پیسے چوری کیے یا نہیں۔۔۔۔۔
کرتے کرتے والد صاحب کی باری آئی تو ڈاکٹر بولا :
” ان سے کہلوانے کی ضرورت نہیں مجھ کو یقین ہے کہ یہ بندہ ایسا نہیں کر سکتا۔ “
والد صاحب خود کہنے لگے ” جناب مجھ سے بھی کہلوا لیں کہیں باقی لوگ غصہ نہ کر لیں”
ڈاکٹر کہنے لگا :
” یونس مجھ تم پر مکمل بھروسا ہے تم ایسا نہیں کر سکتے “
مطلب برتن الگ ہونے کے باوجود اثر و تاثیر کا معیار ، اعتماد کی فضاء اور جانب داری کا ولولہ پکا تھا۔ وجہ ایک برتن ، ایک تھالی، ایک گلاس میں پانی نہیں پیا۔ ایمان و اعتماد کی لہر برقرار تھی کیونکہ تخم کی تاثیر موجود تھی اور صحبت کا اثر نہیں تھا۔ ہر دوسرا بندہ آنکھیں بند کرکے یہ کہتا کہ ” مسیحی لوگ جھوٹ نہیں بولتے اور قسم بھی نہیں کھاتے” یہ نتیجہ اُس علیحدگی اور اپنے راہ پر چلنے کا تھا جیسے جیسے یہ ایام اور نظریہ کمزور ہوتا گیا ویسے ویسے لالچ ، جھوٹ ، فریب ، دھوکہ ، فراڈ جیسی بیماریوں نے اس صحبت کے ذریعے اثر دکھانا شروع کیا۔ وہی بانجھ کا موسم تخم تاثیر اور صحبت کے اثر میں پروان چڑھ کر منہ بولنے لگا۔بچپن کے سوالوں کے جواب سب ملنے لگے۔
دوست کے روپ میں دشمن ، اعتماد کے رنگ میں بد اعتقادی ، رنگ کی جگہ مصنوعی پن نے ڈھیرے ڈال لیے۔ عالم کا رنگ بے رنگ میں بدل کر ایک طشتری میں بیٹھ گیا۔ جہاں ہاتھ سے کھانا کھایا جاتا تھا وہاں اب چمچہ گیری کا غلبہ ہو گیا- تو یاد رکھیں
” چمچہ جس تھالی میں ہوتا ہے اس کو خالی کردیتا ہے۔”
یہ لقمہ داخلی طور پہ ایسا اثر انداز ہوا کہ قیدی کا لقمہ بن گیا۔ جس کے بدلے فہم و شعور کا فقدان ملی بھگت سے باطن میں گھر کر گیا۔ جہاں پر فخر سے سینہ تان کر یہ الفاظ سُننے کو ملتے تھے یہ قسم اور جھوٹ کے چمچ نے چمچہ گیر بنا کر رکھ دیا۔ پورے عالم کو اس صحبت نے گھیر لیا۔ آج وہ پانی پیتے وقت ہاتھ دونوں اکٹھے ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ وہی اکٹھے کی بجائے الگ ہو کر نفرت کی آگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ مکان کچے تھے پر ایمان پکا تھا۔ برتن الگ اور بُری لت سے پاک تھے سچائی کا تحفظ بطور گواہ خودبخود تھا مگر آج سب اُلٹ ہو گیا۔ اس لیے میں کہتا ہوں برتن الگ کیجے ۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading