تحریر: یوحنا جان
بدقسمتی کہوں یا جاہلوں کی پہچان کرنے کا موقع اس کشمکش کی نگاہ میں قلم نے چلنے کا حوصلہ دیا اور چل پڑا ۔ اپریل 2014 ء میں پاکستان کی عدلیہ کا حصہ بننا پڑا افسوس کا مقام یہ ہے کہ ادارہ سے ہاتھ باندھ کر جان چھڑانی پڑی کئی بار استفعٰی دیا مگر منظور نہ کیا۔ جو کہنے میں تو سادہ سا جملہ ہے مگر اس کے پیچھے ایک طویل داستان ہے۔ خیر اس ادارے کا نام تو” اہم ” ہے ہی لیکن میرے نزدیک اس ادارے میں رہنے والوں کا یہ سب سے بڑا “وہم ” ہے۔ اگرچہ یہ لفظ “اہم اور وہم” کئی دفعہ آپ کے کانوں سے ٹکرائے ہوں گے لیکن اس کا عمل دخل شاید آپ کی زندگی میں نہیں ہوا ہوگا جو کہ ماضی کے تناظر میں موجودہ حالات کی عکاسی کرنے میں پیش پیش ہیں ۔ علم حاصل کرنا اور علم کے ذریعے قدرت کو جاننا ایک ارتقائی عمل ہے جو انبیاء اور رسولوں نے بھی میراث کے طور پر حاصل کیا ۔ اسی سے رہبری اور پیغام کا کام سرانجام دیا ۔ افسوس کے ساتھ یہاں نہ میراث ہے اور نہ ہی میراثی۔ نہ علم ہے اور نہ آگاہی بلکہ ان سب کے متضاد کردار کو ایک لفظ اور ایک جملہ میں کہوں تو وہ میرے موضوع کے لفظ ہوں گے۔
تعلیم حاصل کرنے کے لیے ارادہ کیا مگر اس کرسی پر دو “ج ” کا مالک اپنے “اہم” اور “وہم ” کا روپ لیے کرسی پہ براجمان ہوئے سگریٹ کا کش لگا رہا تھا۔ جس نے مذہب کے نام پر کئی دفعہ عزت کو پامال کیا۔ جب عرضی نامہ پڑھا تو فوراً بڑبڑا اُٹھا کہ کوئی ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہے اور نہ میں اجازت دوں گا۔ یاد رہے کہ کسی بھی محکمہ میں آپ ملازمت کرتے ہیں تو سربراہ ادارہ سے اجازت ( NOC) لینا ضروری ہوتا ہے۔ یہ وہ کالا قانون اور کوٹ کا باہمی اشتراک ہے جو اپنے آپ میں “اہم” اور “وہم” کا روپ لیے بلاوجہ مغروری کا شکار ہو چکا ہے۔ بہرحال میں نے کہا اگر آپ کی نظر میں جرم ہے تو ضرور کروں گا وہ فوراً سیگریٹ کو دائیں ہاتھ میں لہراتے ہوئے آپے سے باہر ہوا اور گھنٹی کا بٹن دبایا۔ باہر سے ایک نوجوان جو بطور نائب قاصد معمور تھا آیا اس نے اس سے کہا:
” تم مجھے کیا سمجھتے ہو؟”
وہ بولا” جناب حضور آپ جج ہیں آپ ہمارے مائی باپ ہیں۔۔۔۔۔”
اسی سے سیاہ کوٹ سگریٹ کے کش پہ کش لگائے پھر پوچھتا ہے:
“تم کو پتا ہے کہ تمھاری روٹی اور رزق میرے ہاتھ میں ہے میں اپنے قلم سے تمھاری روٹی و روزی بند کر دوں گا ۔”
یہ” اہم اور وہم ” کی پہلی نشانی جو اس رنگ ،لباس اور ذہنی فتور کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس نے فرعون ہونے کا دعوی ظاہر کیا اور اس فرعون کا نام عامر شہزاد تھا۔ جواُس وقت وہاں بطور سینئر سول جج کام کر رہا تھا میں نے خیال کیا کہ یہ وہمی ہوچکا ہے۔ دولت اور اقتدار کے لالچ میں اِس کو خدا بھی بھول گیا ہے۔ وہی خدا جس نے اُسی راستے حضرت موسٰی اور قوم بنی اسرائیل کو باحفاظت عبور کروایا دوسری جانب اُسی راستے سے فرعون اور اس کی فوج کو غرق کر دیا۔ اپنی عرضی لیے بغیر دفتر سے نکلا اور نکلنے سے قبل یہی الفاظ دہرائے کہ ” تو اہم ہے یہ تیرا وہم ہے۔”
اس کے بعد آئے روز کسی نہ کسی رنگ میں متعدد دفعہ غیر اخلاقی ، نازیبا الفاظ اور مذہبی تناسب گفتگو اس کے منہ سے سننے کو ملی، اعلی عدلیہ کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیا مگر وہی آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اسی دوران ایک روز دفتر پہنچا تو اسی سیاہ عقل کے مارے اور کُرسی کے پیارے نے بلاوا بھیجا اور مجھے بلایا۔ میں گیا تو وہ بالکل اسی انداز میں اپنی کرسی پر براجمان غرور کا فرزند سگریٹ کا لمبا کش لگائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے ایک دم بولا:
“میرے گھر صفائی کرو جا کے اور کوئی آگے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہ ہے ۔”
میں ایک دم پھر چونک گیا کہ یہ وہی وہم کا مارا کرسی کا فقیر منتشر خیالات میں اپنی وقعت کو بھول گیا ہے۔ تھوڑی دیر خاموشی میں سنتا رہا اور پھر میں نے جواب دیا۔
” دولت اور حُسن کے لالچ میں اپنی سیرت خراب مت کرو -دولت دنیا تک اور تمھارا حُسن قبر تک محدود ہے۔ ”
کم عقلی، بے ضمیری اور ہوس لاانتہانقطہ پر وہ حواس باختہ ھو گیا اور کہا :
“تم نے میرے گھر صفائی کا کام کرنا ہے۔”
میں نے جواب دیا :
“اگر میں بطور سینٹری ورکر ہوں تو کرتا ہوں مگر میری نوکری اور عہدہ یہ نہیں ہے بلکہ تعمیل کنندہ کا ہے۔میں نے تو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے عرضی دی ہے نہ کہ ان بے جاسوالوں کے جواب دینے کی -”
پھر کیا وہی عمل جو کالے رنگ ،کردار اور وہم پن کا ہوتا ہے آگ بگولہ ہوا سیگریٹ کا لمبا کاش اور کرسی پر سے کھڑا ہو گیا۔ تھوڑے ہی وقت کے بعد انکوائری لگا دی گئی اور وہم کے شکار کارندے جھوٹی گواہی اور قنوطیت کے متلاشی میدان میں اتر آئے۔ جو خارش ذدہ کتوں کا روپ آج بھی رکھے ہوئے ہیں ۔ جن میں قابلِ ذکر ابرار تیلی، جوئیہ اور شاہد غلام انجم ۔
سارا کچھ ہوا مگر اس کا وہم بڑھتا گیا انکوائری برخلاف کردی گئی آخر میں اُس نے وہی جملہ دہرایا
” ابھی بھی تمھارا رزق اور روٹی میرے ہاتھ میں ہے۔”
اب اس جملے کے پس منظر میں ایک عامر شہزاد نہیں بلکہ پورے آوے کا حقیقی چہرہ ہے۔ جو اس وقت اسی سوچ ، نظریہ اور وہم پن کا شکار ہو چکا ہے۔ جس نے نہ صرف غریب کے منہ کی روٹی چھین لی ہے بلکہ اپنے آپ کو فرعون کا ثانی لے کر اس سرزمین پر کالا نشان ثابت ہو چکے ہیں۔ میرے نزدیک ایک وہمی تحریک جنم لے کر ان کے خون کی رگوں میں دوڑ رہی ہے۔ جو صرف بُرے خیالوں، دوسروں کو نیچا کرنے، انسانیت کی تذلیل اور قنوطیت کا روپ لیے شام و سحر شیطان کے قریب ہونے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں ۔ یہاں بتاتا چلوں کہ ہر وہ بے غیرتی اور ڈرامے بازی کا سامنا کیا جو عامر شہزاد اور اس کے حواریوں نے کیا یہاں تک کہ جو میرے اپنے تھےوہ بھی میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ سب بُرے وقت کی برائیاں کرتے ہیں مگر میرے نزدیک بُرے وقت کا ایک فائدہ بھی ضرور ہے کہ اپنے اور بیگانے کی پہچان کروا دیتا ہے ۔
ان کو یہ معلوم نہ ہے کہ رب کائنات کا یہ فیصلہ آج بھی قائم ہے کہ اگر کوئی فرعون بننے کی کوشش کرے گا تو ہر زمانہ میں خدا اس کے متبادل کوئی نہ کوئی موسٰی کا روپ پیدا کرے گا۔ عامرشہزاد اور اس کے جیسوں کا کردار اس وقت پڑھے لکھے جاہلوں کا ہے ڈگریاں موجود ہیں مگر اخلاقیات نہیں، تعلیم موجود مگر تربیت نہیں ،ظاہر میں جج باطن میں فرعون وجاھل ، نہ جانے کیا کیا کردار لیے اس زمین پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک جاھل کو ایک” ج ” اور اس عہدہ کو دو لگی ہوئی ہیں۔ جو نا اہلی، نکمے پن، سُستی کے مارے اور وہم کے شکار کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو دن رات اپنی حقیقت کو چھپانے میں مگن ہیں۔ جو دوسروں کی زندگیوں سے کھیلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایک طرف ظاہری سیاہ کوٹ پہنا ہوا تو دوسری طرف اسی سیاہ کوٹ نے ان کی نا اہلی کو چھپانے کا کام بھی ادا کیا ہے۔ سیاہ کردار اور منتشر خیالات وہم کا شکار ہو کر یہ بتا رہا ہے کہ ان لوگوں کے چہرے نامکمل ، انسانیت سے ناواقف ، بصیرت سے عاری اور نحوست کے نقش اور چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ جن کے اوپر خوبصورت کپڑے جو روزانہ بدل کر ڈالے جاتے اور موجود ہیں مگر ان کے اندر روح نہیں ہے۔
یہ وہی مثال ہے کہ بازار میں کپڑوں کی دکان کے باہر مجسمہ کے اوپر خوبصورت کپڑوں کے ملبوسات پہنا کر گاہکوں کو مدعو کیا جارہا ہے اچانک ایک لاچار بھوک سے مارا اور جسم سے ننگا لڑکا گزرا جس کے ہاتھ میں کچرے کا تھیلا موجود تھا اور اس مجسمہ کے آگے آ کر بولا:
” میرے پاس کپڑے نہیں، تیرے پاس روح نہیں۔”
جب یہ کردار سامنے لاتا ہوں تو مجھے منظور راہی کا لکھا ہوا افسانہ ” ہتھیلی ۔۔۔ لب و کشکول ” یاد آتا ہے جس میں وہ لکھتے
ہیں:
” بہت دور سے کتوں کے رونے کی آوازیں میرے غیر مری احساسوں پر اپنی نحوست کے دانت گاڑے میرے کم عمری پر ناچ رہے ہیں ۔ ان میں کچھ خارش زدہ کُتے بھی ہیں ۔ وہ میرے نقش کو مٹانا چاہتے ہیں مگر میں نے ابھی تک سرسبز زمین میں اپنے دفن ہونے کی جگہ کا انتخاب نہیں کیا۔ میں اس خاموشی کو اپنا وجود سونپ کر کتنا سکون محسوس کروں گا۔ جب بہار میں شہتوت کی کونپلیں پھوٹیں گی اور جذبات ہی خوابوں کی سیڑھی لگا کر مستقبل کی راہیں تلاش کریں گے۔ کتوں کی آوازیں اب بھی میرے جسم سے لپٹ کر میری تلاشی لے رہی ہیں ۔ “
نوکری سے خیر نکال دیا گیا مگر مستقبل بھی خطرے میں ڈال دیا گیا۔ مطلب وہی جھوٹ اور فریب کے کارندے کروٹ اور روپ بدل کر میرے گھر پہنچ گئے کہ یہ سب عامر شہزاد کا کیا دھرا ہے وہ تمھاری کامیابی کو ناکامی میں بدلنا چاہتا تھا۔ یہ وہ بچھو ہیں جو کروٹ بدلنے کی ٹھان کر ہوا میں ارتعاش پیدا کرنے لگےجن میں شاہد غلام انجم، امتیاز جوئیہ اور ابرار تیلی اور ان جیسے کئی زنگ آلودہ ذہن اپنے ذہنوں کی کوکھ سے بدبو دار اور بے جان خیالوں کو مجسم کرنا چاہ رہے ہیں شامل اور قابل ذکر ہیں ۔ جن کی باقاعدہ ویڈیو بھی منظر عام پر آئی ، یہی لوگ جھوٹی قسمیں اُٹھا اُٹھا کر خارش زدہ کتوں کا روپ لیے میرے مستقبل میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک سرسری نظر ان چلتے پھرتے قبرستانوں پر کی اور منافقت کی فضاء سے مخاطب ہوا کہ:
“خوبصورت کپڑے تو تمھاری ظاہری خوبصورتی میں اضافہ کر سکتے ہیں مگر تمھاری اوقات میں نہیں ۔”
اس کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ آج عدلیہ کی تاریخ میں جسٹس کرنیلیس اور جسٹس بھگوان داس جو اقلیت سے تعلق رکھتے تھے ان کی مثالیں دی جاتی ہیں اور پاکستان کی موجودہ عدالتیں سول کورٹس سے لے کر سپریم کورٹ تک بھری پڑی ہیں مگر ان میں کسی کا تعلق بھی اقلیت سے نہیں ۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔