تحریر: یوحنا جان
ادب ایک مرکز جو ہنر مندی کی بیل کو پروان چڑھانے کی ایک دعوت و تبلیغ ہے جس سے نہ صرف زندگی کی جڑیں اس زمین سے پیوستہ ہیں بلکہ وہ حرارت و تپش سے احساس کا فن ، تعلق کا ڈھنگ اور رنگت کی کشش لیے اپنا آپ عیاں کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے افسانوی میدان میں محترمہ نصرت جان ایک خیالات کی تخلیقی و احساسی مہارت کو اس ارض پہ اپنے پیوستہ ہو نے کا فن دیتی ملتی ہیں۔ جو ان کے موضوعات وہ ادب کی امکانی صداقت کو عکسِ رونما کرتے ہیں۔ اس کا تذکرہ اسی لیے کر رہا ہوں کہ ان کو میں صرف نام اور اپنی کانوں کی سماعت تک جانتا ہوں ان کی شکل میں نے ابھی تک نہیں دیکھی۔ فون پہ متعدد بار بات ہوئی ماں کی آواز ، درد کا آنگن اور ایک محبت کا دامن لیے ہمیشہ لفظوں کے پیرائے میں متحرک مسکراہٹ پائی۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ جنوری 2024ء کو موصول ہوا۔ اس کو پانے کے بعد پڑھنے کی تپش پائی۔ ابتدائی موضوعات کو پڑھنے کے بعد تجسس کا دامن بڑھ گیا تو مزید دل چسپی نے آہٹ کی۔ موضوع سادہ اور وقتِ ضرورت کی کشش لیے بغل گیر ہوتا گیا۔ ایک موضوع اپنی کشش سے ہاتھ ملاتا تو دوسرا بڑھ کر بغل ہوتا جیسے سامنے بیٹھ کر وہ خود کلامی کا موقع ہو۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو موضوع ” محبت کی جادو گری” پہ نظر کی تو وہ اسی چال میں ملا۔ جس میں فطرت کا رنگ ، محبت کی دھوم اور ولولہ انگیزی شامل پائی۔
” محبت تو اس کی روح میں ، اس کے دل میں ، اس کے انگ انگ میں بسی ہوئی ہے۔ اسے پیڑوں ، پودوں ، پھولوں ، تتلیوں ، جگنووں ، پرندوں ، پہاڑوں ، نالوں ، بادلوں ، ستاروں اور چاندنی رات سے محبت تھی۔ اس کے گھر کا دالاں ہمیشہ پھولوں سے بھرا رہتا ہے۔”
جس طرح میں نے آغاز میں بتایا کہ وہ مجھے صرف نام اور آواز سے جانتی ہیں اور میں بھی دوسری طرف ایسا ہی ہوں مگر ایک بات قابل غور جو ایک محبت کی نام پر وہ ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح ہی چاہا اور بات کی۔ جو ایک طرف ان کی محبت کی جادوگری ہے۔ فطرت کی خوبصورتی مختلف کنایوں سے ظاہر کرکے ایک ماں کا آنگن بھرا نظر آتا ہے۔
مزید آگے چلتے چلیں تو افسانہ بعنوان ” روپ ” میں اس کی دوسری کڑی ملتی ہے جو ہمیشہ ادب و زندگی کے تعلق کو باہم مربوط کرکے بیان کرتی ہیں۔ ” یقین کرو میرا بھی ردعمل تمھارے ہی جیسا ہوتا لیکن خُدارا تم اس طرح خاموش رہ کر اپنے آپ کو تباہ نہ کرو اور مجھے مزید سزا نہ دو اور خدا کا شکر ادا کرو کہ کہیں تم آزمائش کے لمحات میں آزمائی نہ گئی۔ مجھے معاف کردو کیونکہ میں کمزور لمحوں کی زد میں آ گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ میں نے تمھارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی لیکن مجھے تم سے محبت اور میں تم سے دور نہیں رہ سکتا۔”
اس میں بھی وہی ہم آہنگی ، اپنائیت ، جذبہ اتحاد اور اعتماد کو برقرار رکھنے کی کرن ہے۔ جو عام طور پہ غلط فہیمی کی نذر کر دی جاتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محترمہ کی تحریر ایک محبت کی جادو گیری نہ صرف لفظوں کی صورت میں کر رہی ہے بلکہ ایک خاتوں ، ماں اور خاندان کی ضرورت کی نمائندہ ملتی ہیں۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ لفظ بولتے نہیں بلوا لیتے ہیں۔
مزید تحریر کا مطالعہ کیا تو اپنائیت کوٹ کوٹ کر ملی جس نے نہ صرف تحریر کو خوبصورت بنایا حتی کہ اس کو اپنا پن میں کرکے بغل گیر ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ جیسا کہ ان کی تحریر بعنوان ” زندگی کی پہلی پت جھڑ ” کے آغاز میں ہی اپنائیت کو اولیت دی۔ ” میرے بچو ! تم اتنے اداس کیوں ہو؟ ، میرے بچے پیاس سے مر رہے ہیں۔۔۔۔۔ وغیرہ یہ وہ عناصر ہیں جن کو نہ صرف لفظ خود بلکہ قاری پہ بھی اپنے پن کا جادو چلا رہے ہیں۔ یہ تو ایک طرف بات ہے دوسری طرف خود محترمہ اس کو تجرباتی و احساسی سیڑی لگا کر محبت و اُلفت کا دامن وسیع کرکے ادب و زندگی کا حاصل شدہ گلستان نمایاں کر رہی ہیں۔ اسی تحریر میں وہ اس کو خود بول کر گردونواع والوں کو باخبر کر رہی ہیں۔ ” دفعتاً وہ بولی میں ایک ماں ہوں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم ایک گلستان کو سرسبز کرنے کے لیے دوسرے پودوں کو نوچ ڈالیں یہ پودے پانی کی وجہ سے زندہ ہیں”
ہر لحاظ سے ماں کی آواز اور وہ درد بھرا لہجہ جو خاندان ، اولاد اور اس کی آبیاری کے لیے کرنا ہوتا ہے مکمل واضح ہے یہ سن ایک ماں ہی جانتی ہے۔ اس لیے یہاں تانیثیت کا بھی غلبہ ہے۔ بات اسی تحریر تک نہیں آگے تک ان کی تحریر میں یہ عنصر غالب اور آج کی اولاد کو اس سے باخبر کرتا ہوا نظر آتا ہے کیونکہ ادب برائے زندگی ہے۔ ان دونوں کی ایک وضاحتی جھلک دیکھ لیں بعنوان تحریر ” بازگشت ” میں وہ بیان کرتی ہیں۔
” ماں جی جو صحن میں چارپائی بچھائے ڈاکیے کا انتظار کرتی رہتی اور ان کے نظریں ہمیشہ گھر کی طرف آتی سڑک پر لگی رہتی کہ ڈاکیا کب آئے گا اور آواز دے گا۔۔۔۔۔۔ ”
ایک ماں کا وہ آواز سُننے کے لیے بے تابی کا منظر وہ ماں ہی جانتی ہے جو اولاد اور اس کے مابین فطرت نے راز میں رکھ کر ناقابل بیان کر رکھا ہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ آج اس کو دُہراتی ہیں جو موجودہ مناظر میں زر ، زن اور زمین کے عوض کھو چکی ہے۔ اگرچہ محترمہ نصرت جان کے ہاں تانیثیت ہے لیکن وہ اس کو ایک نئے انداز میں بیان کر رہی ہیں جو وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو حقیقی احساس میں بذات خود دیکھ چکا بلکہ محسوس کر چکا ہوں یہی وہ ادب ہے جو ادب کو باادب بناتا ہے۔ ادب اور زندگی کی دہلیز پر دستک دیتا ہم آہنگ کرتا اور داخلیت میں ایک شے کو جنم دیتا ہے جس کا دوسرا نام محبت ہے اس لیے میرا یہ کہنا ہے کہ محبت ہو جاتی ہے پر نفرت سیکھائی جاتی ہے۔ مجموعی طور پہ ایک تحریر نہیں بلکہ یہ ایک طرز احساس ہے کو انھوں نے سمجھا دیکھا کرکے تجربہ حاصل کیا اور اس کو دوسروں تک بھی پہنچایا۔ اس حوالی سے آخری بات کہ علم یہ نہیں الفاظ کتنے مشکل اور بات کتنی گہری ہے بلکہ علم یہ ہے کہ الفاظ کتنے سادہ اور بات کتنی ضروری ہے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔