تحریر: یوحنا جان
اختصار کی سی آہٹ اور دامن مسکراہٹ کا اسلوب ایک طرف دوسری جانب احساس کا وہ معیار جو اپنے اندر ایک دنیا لیے دوسروں کو اپنے پن کا احساس دلوئے۔ ان باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لاہور سے کوئٹہ کا سفر 29 جون کی شب شام 4:00 لاہور ریلوے اسٹیشن سے بذریعہ جعفر ایکسپریس شروع۔ ایک محبت کی سرگوشی اپنے آپ خود سے پوچھ رہی کہ تم کیا شے ہو؟ کبھی ادھر اور کبھی اُدھر کا ہو کر اپنے آپ سے بیگانہ ہونے کا تو نہیں ارادہ۔ میں ایک دم خاموش سفر کو رواں رکھتے ہوئے لب خاموش جواب کی تلاش میں چل پڑا۔ ابھی اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی سعی کرتا کہ ریورنڈ فادر پرویز رضا او ایم آئی کی کال آ گئی۔ ان کو ایک ہفتہ قبل یہ بتا چکا تھا کہ آپ کے ہاں آ رہا ہوں۔ ان کا پوچھنا تھا کہ ریل گاڑی میں بیٹھے ہو کہ نہیں؟
میں ایک دم بولا فادر جی سفر آپ کی دعا سے شروع ہو گیا ہے اور ابھی لاہور چھاونی کااسٹیشن نکل آیا ہوں۔ چودہ نمبر برتھ اور نو نمبر کوچ ساتھ آرمی سے ایک آدمی جو پشاور سے کوئٹہ اپنی ڈیوٹی پہ جارہا ہو لیا۔ تعارف ہوا اور خوش گپی کا آغاز ہو چلا۔ سفر کا دورانیہ ساہیوال تک بہت تیزی سے گزرا پھر اچانک فادر جی کی کال آئی کہاں پہنچ گئے ہو اور کھانا بھی کھایا کہ نہیں؟
میں نے کہا فادر جی ساہیوال تک آ گیا ہوں اور کھانا بھی کھا لیا ہے۔ انھوں نے کہا رابطہ کرتے رہنا۔ میں نے کہا جی بالکل۔
رات دس بجے کہ میں نے برتھ کھولا اور سو گیا۔ فادر جی کال کرتے رہے مگر سگلنلز نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ نہ ہو پایا۔ یہاں پریشانی کا عالم ایک دم اُس طرف محسوس تو ہوا ہو گا جو جاذبیت سے بھرا ایک لمحہ دست شفقت کی انتہا کو چُھو رہا ہوگا پر اب وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔ ملتان سے ایک فیلمی ہمارے سامنے والے برتھ پہ آ بیٹھی جن کی آمد نے بیدار کیا انھوں نے بھی کوئٹہ جانا تھا۔ خیر خدا کو یاد کرتے ہوئے صبح ہوئی اور سات بجے میں اُٹھا۔ منہ ہاتھ دھویا اور موبائل کو دیکھا تو فادر جی کا مسیج آیا ہوا کہ کہاں تک آئے ہو۔ میں نے جواب میں مسیج کیا کہ میں جیکب آباد جنکشن پہنچ چکا ہوں جہاں ایک برگر لیا اور کھایا۔ ایک بات نے مجھے گراں قدر سنجیدہ کیا جو یہاں کے لوگ کی حالت زار۔ جب بھی ٹرین کسی آبادی سے گزری یا ریلوے اسٹیشن پر رُکی تو متعدد چھوٹے بڑے لوگ نظر آئے جن کے ہاں اگر شلوار ہے تو قمیض نہیں ، چہرہ ہے مسکراہٹ نہیں ، رنگ ہے خوشبو نہیں ، جسم ہے مگر کپڑا نہیں اور ہاتھ ہیں پر طاقت نہیں یہ سلسلہ آگے تک دیکھتا چلا گیا۔ تب مجھے یہ بات کنفرم ہو گئی کہ آج بھی بھٹو زندہ ہے۔ ایک طرف وہ ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی موجودگی کا دعویٰ کر رہے تھے تو دوسری طرف اپنی خوشی سے ریل میں سوار مسافروں کو الوداع کر رہے ملتے ہیں پر مجھے جو اس کا مطلب سمجھنے کو ملا کہ وہ اپنے ہاتھوں اور رنجیدہ چہروں سے اس بات کااعلان کر رہے ہیں کہ یہاں سے چلے جاو جتنی جلدی ہو سکے کیونکہ یہاں بھٹو آج بھی زندہ ہے۔
یہاں سے ایک دم ہرطرف سے ایف سی کہ اہلکار بندوقوں کو لیے ٹرین میں سوار ہوئے۔ میں چونک گیا کہ یہ کیا معاملہ؟ ساتھ والے سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ اب ٹرین میں سیکیورٹی کریں گے جب تک کہ ہم کوئٹہ نہ پہنچ جائیں۔ یہ بڑی اچھی بات ہے ہر کوچ میں تین سے چار اہلکار برابر براجمان اپنے نشستوں پر چاروں طرف دیکھ جا رہے تھے۔ دوسری طرف جیسے ہی ٹرین کسی اسٹیشن پر رُکتی تو باہر دونوں جانب یہ لوگ ہوتے۔ اس دوران مسافر اپنی ضرورت کے مطابق آتے اور جاتے۔
سبی اسٹیشن پہ پہنچا تو پھر فادر جی کی کال آگئی کہ کیا صورت حال ہے کھانا بھی کھایا کہ نہیں۔ میں نے بتایا کہ سبی پہنچا چکا ہوں یہاں سے بھنڈی اور روٹی ابھی ابھی کھائی ہے۔ ان کا جواب ملا کہ جھوٹ تو نہیں بول رہے۔ میں نے کہا نہیں فادر جی میں نے کھایا ہے۔ جیکب آباد سے مچھ تک ٹرین اپنی سست روانی سے چلتی رہی اس کی کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ مچھ کوئٹہ سے قبل کا اسٹیشن میں نے فادر جی کو بتایا کہ یہاں سے ایک گھنٹے کا سفر ہے میں پہنچ جاوں گا۔ اتنا کہنا تھا کہ ٹرین اپنی رفتار میں بہتری لا کر آگے بڑھتے ہوئے چھک چھاک کرتے چلتی گئی اتنا کہ میں نے فادر جی کو کال کی کہ ہم کوئٹہ شہر میں داخل ہوگئے ہیں کوئی دس منٹ تک پہنچ جانے والے ہیں۔ پھر کیا آن بان شان کرتے فادر جی ساتھ ماسٹر جی کو لیے ریلوے اسٹیشن آکھڑے ہوئے۔ ابھی ٹرین سُست ہو کر اسٹیشن کی مرکزی حد بندی میں داخل ہوئی کہ فادر جی نے کال کر ڈالی اور بتایا کہ نیلے رنگ کے کپڑے پہنے ماسٹر جی آپ کو لینے پلیٹ فارم پہ کھڑے ہیں۔ میں نے کہا کہ جی بہتر۔ صرف کوئی ایک منٹ کا وقفہ بمشکل کہ ماسٹر جی کی کال میں نو نمبر کوچ کے پاس کھٹرا ہوں۔ میں نے کہا جی میں بس آیا اپنا سامان اُٹھا رہا ہوں اور آپ کو ڈبہ میں سے دیکھ لیا۔ باہر نکلے سلام ہوا۔ انھوں نے بیگ اُٹھانے کوشش کی مگر میں نے اصرار کیا کہ ایسا نہ کریں۔ بڑا اصرار کرنے پر وہ مان گئے۔ باہر نکلے فادر جی گاڑی سے اُترے گلے ملے اور فوراً پوچھا کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا۔ میں نے عرض کیا نہیں گاڑی میں بیٹھے اور پیرش ہاوس کی طرف۔ پانچ منٹ میں ہم پیرش ہاوس میں ۔
کمرا تیار ملا سب کچھ اپنی جگہ پر قائم مجھے کہنے لگے ابھی ریسٹ کرو پھر ملتے ہیں۔ شام کو کھانے پر ملاقات ہوئی ریورنڈ فادر عامر شہزاد اور ریورنڈ فادر قیصر بوٹا اور ماسٹرز( مناد ) اور باقی لوگوں سے تعارف ہوا۔ سیر سپاٹے کا ایک پلان کیا بدھ والا دن زیارت کا فائنل ہوا اور سونے کے لیے کمرے میں آگیا۔
صبح آٹھ بجے ناشتے والے میز پر میں ، ریورنڈ فادر عامر شہزاد او ایم آئی ، ریورنڈ فادر قیصر بوٹا او ایم آئی اور ریورنڈ فادر پرویز رضا او ایم آئی کے ساتھ مل کر ناشتا کیا۔ شام کے مطابق منگل کی پاک ماس میں شامل ہونے کے لیے جاتے وقت بھی ماسٹر جی لے کر گئے اور واپسی پر بھی موٹر سائیکل پر پیرش ہاوس چھوڑا۔ بات ایک اندازہ و خوش اسلوبی کہ جو یہاں پر رہ کر ایک محبت بھرا لہجہ اور خاص مزاح کا فن جو سبھی شاہ جی کے ساتھ کسی نہ کسی رنگ میں مسکراہٹ بھرا چہرہ لیے دوسروں کو ہنساتے اور خود بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے ان کا اصل نام الیاس بھٹی ہے۔ یہ ایک وقت کی اہمیت نہیں بلکہ فن اور وقت دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی گرج ہے۔
اکثر متعدد بار اور کئی جگہوں پر میں نے دیکھا بلکہ حقیقی طور پر کرتے پایا وہ کیا ہے؟ اس بات کو ایک جملہ میں کہوں تو ” میں اہم تھا یہ میرا تھا” اس جملے میں دو باتوں کا تذکرہ لازم کرنا سمجھتا ہوں وہ یہ کہ اول الذکر اہم جو میرا کردار دونوں کو عزت دینے اور لینے کے حوالہ سے دوسرا وہم جو بیوقوفی کی دلیل ہے۔ پر یہاں اول الذکر کا غلبہ سے گونج رہا تھا۔
تب سمجھ میں بات آئی کہ عزت تو خُدا دینے والا ہے پر اس کو جاننے کا موقع بھی وہ دیتا ہے لہذا جس کے کان ہوں وہ سُن لے جس کی آنکھ ہے وہ دیکھ لیں۔
اب شاہ جی بھی مسکراتے ہوئے ایک فن اور فن پارے کا روپ دے رہے ہیں جن کی ادا ، لہجہ اور فادر صاحبان کے ساتھ محبت سر چڑھ کر بولتی۔ اگلی صبح کے لیے تیاری کر لی ، کپڑے استری ، جوتا پالش اور باقی سب اوکے کرکے رکھ لیا۔ صبح آٹھ بجے ناشتا تیار کرکے گاڑیوں میں بیٹھ گئے اورزیارت کے علاقہ کی سیروتفریح کرنے نکل پڑے۔ میں فادر عامر شہزاد ، فادر پرویز رضا اور فادر عدیل مظہر چاروں ایک گاڑی میں اور دوسری گاڑی میں فادر قیصر بوٹا دو ماسٹر( مناد) ایک کا نام ماسٹر عرفان جون اور دوسرے کا نام ماسٹر عمران اور ان کے ساتھ الیاس بھٹی عرف شاہ جی۔ راستے میں فادر پرویز رضا ہر ایک ایک پوائنٹ اور جگہ کے بارے میں مجھے بتاتے جاتے ۔ ہر بات میں سر ، سر بول کر ایک طرف مجھے اعزاز دے رہے تو دوسری جانب باقی فادرز اور اپنے اسٹاف کو میرا تعارف کروا کر مجھے ان کی نگاہ میں عزت دلوانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایک طرف میرے سینے میں لڈو پھوٹ رہا کہ عزت پہ عزت اور داد پہ داد کا وار ، دوسری طرف اپنے استادوں کو عزت اور دعا دے رہا تھا کہ آپ سب کا شکریہ جن لوگوں کی وسعادت سے یہ مقام ملا۔ تیسرا باپ کی آخری نصحیت یاد آرہی تھی کہ میری عزت میں اضافہ نہیں کر سکتے تو کمی بھی نہ آنے دینا۔ اس بات پہ اختیاط کانعرہ من میں گونج رہا کہ کہیں کوئی ایسا لفظ یا جملہ نہ بول دوں کہ ساری کی ساری عزت ایک دم پانی میں جا ملے۔
اس بات کو مد نظر رکھ کر اکثر چُپ کا سہارا لیتا۔ فادر عامر اور فادر پرویز باربار کہتے کہ سر جی کچھ بولیں۔۔۔۔۔
میں فادر جی کو کہتا جی آپ بڑے ہیں آپ لوگوں کی باتوں کو سُن رہا ہوں۔ میرے نزدیک جتنا بھی میں پڑھ لکھ جاوں پر آپ تو باپ ہی ہیں ناں اور باپ کے سامنے اگر کوئی ایسا ہو تو وہ غیر اخلاقی بات ہو گی۔ وہ متعدد بار کہتے کہ آپ سر ہیں لیکن ابھی سب مل کر سیروتفریح کے لیے نکلے ہیں مل کر انجوائے کریں۔ میں نے جی بول کر بات کو ہاں میں قرار دیا۔ راستے میں گاڑی کا ساونڈ ، فادر کی مسکراہٹ کا فن اور ہر بات پر مزاح کا عکس مع معلومات لیے میرے سامنے موجود سر جی سر جی۔۔۔۔۔۔۔
وہ زیارت کے علاقہ تک جاتے جاتے کئی بار راستے میں رُک کر مجھے اس علاقہ کی معلومات فراہم کرتے اور یادگار تصاویر بناتے۔ رستے میں ایک ڈیم آیا جو اس علاقہ کے لیے واحد پانی کاذریعہ ہے قدرت کا عطا کیا پانی بارش کے روپ میں یہاں جمع کیا جاتا ہے جو ایام زندگی میں معاون ہوتا ہے۔
یہاں پہلا پڑاو ہوا اور اس کی اہمیت کو جانا اس کے ساتھ یہاں کی خاص خوبی جو علاقہ کے لوگوں کو شاید پتا تھی یانہیں وہ ایک قسم کاخاص پودا جس کا نام ” لیونڈر ” جو مختلف قسم کی مصنوعات میں استعمال ہوتا ہے جن میں قابل ذکر ایئر فرشئیر، پرفیوم اور خوشبو دار چیزوں میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فادر جی کا ایک مختصر انٹرویو اس بابت ریکارڈ کیا جو میں اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ ہو چکا ہوں۔
یہاں سے آگے نکلے تو تھوڑی دیر بعد ہم زیارت کے علاقہ کے مرکزی داخلی گیٹ پر پہنچ گئے۔ اس دوران کئی پہاڑ ، سنگلاخ ، اتار چڑھاو اور نشیب و فراز دیکھ۔ جھنوں نے کبھی کسی کو اونچ نیچ کا درجہ نہ دیا اور دیکھ پایا۔ یہ وہ سبق کہ زمین پر جتنا مرضی بھی اونچا ہو جائے کوئی واپس زمین اس کو بُلا لیتی ہے۔ بلند بالا پہاڑ کبھی کسی کو یہ کہتے نہیں ملے کہ میں زور داری ہوں یا شور داری ، میں ہی ہوں کوئی اور نہیں ۔
اس پہاڑ نے ہمیشہ یہ ہی کردار سے بتایا کہ آج میں بلندی پہ ہوں جیسے ہی آسمان سے برستا ہے پانی تو وہ میری ٹاپ چوٹی کو توڑ کر خاک میں ملا دیتا ہے۔
فادر عامر اور فادر پرویز رضا دونوں جانب موجود ان پہاڑوں کی بلندیوں اور ان کی اصلیت کو پاک کلام سے بتاتے جارہے تھے۔ اسی دوران سفر بھی رواں دواں اور معلوماتی ہوتا جاتا۔ میں ایک طرف خوشی کے گھوڑے پہ ناچ کر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تو دوسری طرف ایک نقطہ احترام جو ان کی عزت کو آبرو سمجھ کر من میں خدا کی شکر گزاری۔
آگے گئے اور زیارت کے علاقہ میں داخل ہوتے ہی ریورنڈ فادر عامر شہزاد نے اس ایریا میں خوش آمدید کہا اور باقاعدہ اس علاقہ کا تعارف کروایا۔ وہ بتا رہے تھے کہ یہ فطرت کا عکس اور تاریخ کا فن ہے جہاں انسان آکر اپنے آپ کو فطرت کے عکس میں محو کر لیتا ہے۔ یہاں کی فطرت ہر لحاظ سے نگاہ حد تک اپنی موجودگی کا اظہار کر رہی ہے۔ جب فادر جی یہ الفاظ بول کر بتا رہے تھے تو مجھے وہ تاریخی الفاظ یاد آئے کہ بیابان میں پُکارنے والے کی آواز کہ خدا کی راہ کو سیدھا بناو۔
آگے بڑھے تو اس علاقہ کی شادابی نے چاروں طرف سے گھیر لیا، کہیں سیب کے باغات ، کہیں آلو بخارہ تو کہیں اخروٹ کے وسیع زرخیز منظر کے ساتھ خرمانی اپنی رنگت و خوشبو سے رب کریم کی تعریف بیان کرتی نظر آئی۔ اس کے ساتھ ہمارا سفر رواں دواں زیارت میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ پہ جا کر رُک گیا۔ جہاں ہم نے داخلی فیس ادا کرکے اس کے تاریخی پس منظر کو دیکھا۔ اس بلڈنگ کا مکمل کام داخلی و خارجی لکڑی کا کیا ہوا جو برطانوی طرز تعمیر کا فن شاہکار تھا۔
اس میں موجود تمام کمرے ، فرنیچر اور دیگر ضروری سامان آج بھی اپنی حالت میں موجود ہے ماسوائے اس کے داخلی طرف جو وہاں سے معلوم ہوا کچھ شرپسند عناصر نے اس کو جلانے کی کوشش کی تھی۔ اس کی مکمل تفصیل ویڈیو کی صورت میں میں اپنی یوٹیوب چینل پہ اپ لوڈ کر چکا ہوں جس کا نام Knowledge With Youhana ہے۔
اس دوران ماسٹر عرفان جون اور ماسٹر عمران نے تفصیلی معلومات فراہم کی۔ فادر جی نے اس منصب کے بارے پہلے بتایا تھا مگر اس بات کو سُن کر ایک دم مایوس بھی ہوا اور افسوس کرنے کا موقع بھی دیا۔
اس دوران مختلف مقامات پر گئے اور وہاں بلند و بالا پہاڑوں پر خدا کی قدرت کا عکس اور موجودگی کو پرکھا۔ اس کے بعد زیرو پوائنٹ پر گئے جہاں ایک درخت نے عربی زبان و ادب کے مطابق لفظ اللہ کی شکل اختیار کی ہوئی تھی۔ دور دور سے لوگ اس کو دیکھنے کی خواہش لیے آ رہے تھے اور بڑے احترام کے ساتھ ہاتھ باندھ کر اس کے چاروں طرف کھڑے اللہ ہو اکبر کی صدا بلند کرتے ملے۔
میں ایک دم چونک کر رہ گیا کہ یہ کیسا منظر ہے؟ آخر خدا اب صرف ان درختوں کی شکلوں میں ہی رہ گیا دیکھنے کے لیے ۔۔۔۔۔ کیا ان انسانوں میں اب وہ غیر موجود ہے ؟
کبھی بادلوں پر یہ عکس اور کبھی روٹی پہ اگر یہاں نہیں تو کسی جانور کے سینگ یا جسمانی بناوٹ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
اب اس کا جواب آپ خود اپنے آپ کو دے سکتے ہیں میں خود اس کا جواب پا چکا ہوں۔ اس بابت بھی اپنے چینل پر ویڈیو اپ لوڈ کر چکا ہوں۔
یہاں سے واپسی پر کھانا کھایا اور راستے پر چائے کے لیے ایک ہوٹل پر رُکے۔ اس کے بعد واپسی کی راہ اور شام سات بجے تک ہم کوئٹہ پہنچ گئے۔ کوئٹہ شہر میں آکر آئس کریم کھائی اور ایک گپ شپ کا منظر بھائی چارے کو فروغ دیتا ملا۔
میں اس مختصر دورانیہ میں بہت کچھ سیکھ کر اپنے اندر ایک یاد کا فلسفہ لیے خیالات میں محو اور اس خدا کی قدرت کو سمجھنے مصروف رہا۔ گھر پہنچ کر سب کا شکریہ ادا کیا اور اس کے عوض محبت و پیار کوقریب سے سمجھنے کا فن پایا۔ رات کو 9:00 بجے میں اور ریورنڈ فادر پرویز رضا دونوں ایک ضروی کام کی نسبت ایک فیملی کے ہاں گئے جس کا ذکر یہاں کرنا مناسب نہیں وہ باقی بعد میں ۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح آٹھ بجے میں کراچی کے لیے روانہ ہوا۔ فادر پرویز رضا اور فادر قیصر بوٹا دونوں نے مجھے کوئٹہ سے کراچی کے لیے بس میں سوار کیا۔ نیک دعاوں اور تمناوں سے الوادعی کرتے ہوئے اُلفت کا یہ احساس اندر زور زور سے کہتا جاتا تھا کہ پھر ملیں گے، پھر ملیں گے ایک دن پھر ملیں گے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔