تحریر: یوسف بنجمن
جنوری 24 کو دنیا بھر میں عالمی یومِ تعلیم کے حوالے سے منتخب کیا گیا ہے۔ تعلیم کے اس اس حق کو انسانی حقوق کے عالمی منشور کے آرٹیکل 26 میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
ہر شخص کو تعلیم کا حق ہے۔ تعلیم مفت ہوگی، کم از کم ابتدائی اور بنیادی درجوں میں۔ ابتدائی تعلیم جبری ہو گی۔ فنی اور پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کا عام انتظام کیا جائے اور لیاقت کی بنا پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا سب کے لئے مساوی طور پر ممکن ہوگا۔
تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی پوری نشوونما ہوگا اور وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کرنی کا ذریعہ ہوگی۔ وہ تمام قوموں اور نسلی یا مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت، رواداری اور دوستی کو ترقی دے گی اور امن کو برقرار رکھنے کے لئے اقوامِ متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی۔
والدین کو اس بات کے انتخاب کا اولین حق ہوگا کہ ان کے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے گی۔
اسی تناظر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 3 دسمبر 2018 کو عالمی امن اور پائیدار ترقی کے لیے ایک قرارداد منظور کی جس کا مقصد تعلیم کو فروغ دینا تھا۔ لہٰذا ان بنیادی مقاصد کے حصول کے لئے 24 جنوری کو تعلیم کا عالمی دن مقرر کیا گیا، جس کا مقصد تعلیم کے حق کو تسلیم کرنا ، اسے فروغ دینا اور اس کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اظہارہے۔
تعلیم کا پہلا عالمی دن 24 جنوری 2019 کو منایا گیا یوں اس سال یہ چھٹا عالمی یومِ تعلیم ہے۔
سال 2024 کے عالمی یومِ تعلیم کے لئے اقوامِ متحدہ نے جو عنوان منتخب کیا ہے وہ ہے “پائیدار امن کے لیے سیکھنا” ۔ دنیا میں چونکہ امتیازی سلوک، نسل پرستانہ رویے اور نفرت انگیز تقاریر اور ان کے نتیجہ میں پرتشدد تنازعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے ، لہٰذا امن کے فروغ ، تنازعات کے حل اور انسانی ترقی کے لیے تعلیم کا فروغ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری سمجھا جانے لگا ہے اور تعلیم یقیناً ان کوششوں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل- A 25 میں تعلیم کے اس حق کویو ں تسلیم کیا گیا کہ ریاست پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو اس طریقے سے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی جس کا تعین قانون کے ذریعے کیا جائے”۔
جبکہ زمینی صورتحال یکسر اس کے برعکس اور پریشان کن ہے ۔ یونیسکو کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ رپورٹ کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 66 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے، جو اس عمر کی کل آبادی کا 44 فیصد ہیں۔ ایسی صورتحال میں تعلیم کے فروغ کی جدوجہد کو عام کرنا اور اس دن کی اہمیت کو اُجاگر کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
یونیسکو اس سال تعلیم کے عالمی دن کو نفرت انگیز تقاریر کا مقابلہ کرنے میں تعلیم اور اساتذہ کے اہم کردار کے لیے وقف کر رہا ہے، یہ ایک ایسا منفی رحجان ہے جس نے حالیہ برسوں میں سوشل میڈیا کے استعمال سے ہمارے معاشروں کی اقدار کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔
ضروری ہے کہ قیامِ امن، پایئدار ترقی ، تعصبات اورنفرت کے خاتمے کے لئے تعلیم نا صرف عام کی جائے بلکہ لازمی اور مفت کی سہولت کے انتظامات بھی لازم ہیں نیز تعلیم مساوی، معیاری اورغیر متعصب بھی ہو اور رواداری کو فروغ بھی دے۔