یوسف بنجمن
عالمی سطح پرمذہبی ہم آہنگی کے فروغِ کے لیے سالانہ سات دن یعنی یکم تا 7 فروری خصوصی طور پر مقرر کئے گئے ہیں، جن کا مقصد معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم مساوات، عدم رواداری، عدم برداشت، تشدد، نفرت اور تعصبات کا خاتمہ کرنا اور قبولیت، محبت ، ہم آہنگی کی ثقافت اور باہمی معاشرتی اقدار کو فروغ دینا ہے۔
امن اور عدم تشدد کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے ہفتہ برائے عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور اُردن کے شاہ عبداللہ دوئم نے 23 ستمبر 2010 کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا جسے اقوامِ متحدہ نے محض ایک ماہ بعد ہی 20 اکتوبر 2010 کو متفقہ طور پر منظور کر لیا اور یوں عالمی سطح پر بین العقیدہ ہم آہنگی کی کوششوں کو بڑھوتری ملنے لگی۔
تاریخی طور پر دنیا بھر کے مذہبی رہنما پہلی بار 1893 میں شکاگو میں ورلڈ پارلیمنٹ آف ریلیجنز میں شریک ہوئے، جسے آج کے کارکنان مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد اور آغاز قرار دیتے ہیں۔
بین المذاہب ہفتہ کا مقصد ہر سطح پر بامعانی اور قابلِ قدر تعلقات کی ثقافت اور روایت کو مضبوط بنانا اور فروغ دینا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی ہرسال اس ہفتہ کے لیے ایک موضوع بھی مقرر کرتی ہے لہٰذا اس سال کا موضوع ” میری زندگی ، میرا مذہب” منتخب کیا گیا ہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کے لیے درجِ ذیل اصول مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد تصور کئے جاتے ہیں۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمے کا مقصد عقیدے کی تبلیغ یا تبدیلی مذہب نہیں ہے،
سخت مذہبی موقف اور مفروضوں سے اجتناب کیاجائے،
مذہبی تعلیمات اور تصورات پر سوال و جواب اور مباحثہ نہ کیا جائے،
مذاہب کی مقدس ہستیوں،دستاویزات، تصورات اورتعلیمات کی تضحیک نہ کی جائے،
دیگرعقائد کو سمجھا جائے، احترام کیا جائے اور قبول کیا جائے۔
عالمی بین المذاہب ہم آہنگی کا ہفتہ مذہبی رواداری اورخیرسگالی کے فروغ کے کارکنان کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے کہ جہاں وہ دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ وہ عدم رواداری کے رحجانات کے خلاف منظم ، متحرک اور متحد آواز ہیں۔
ہر سطح پر اور ہر معاشرے میں مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم، ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانے کے لیے مکالمے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے ، اسی ضمن میں 2010 میں ہفتہ برائے فروغِ مذہبی ہم آہنگی کےآغازسے قبل اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی متعدد دستاویزات اور قراردادیں انھی کوششوں کی کڑی ہیں جن میں قابلِ ذکر درجِ ذیل ہیں:
نومبر4′ 2002 کوامن اورعدم تشدد کی ثقافت کے فروغ سے متعلق قرار داد،
دسمبر 19′ 2003 کو مذہبی اور ثقافتی افہام و تفہیم، ہم آہنگی اور تعاون کے فروغ پر قرارداد،
اکتوبر 20′ 2005 کوتہذیبوں کے درمیان مکالمے کے عالمی ایجنڈے پر قرارداد،
نومبر 10′ 2009 کو تہذیبوں کے اتحاد پر قرارداد،
دسمبر 7′ 2009 کو بین المذاہب اور بین الثقافتی مکالمے کے فروغ، امن کے لیے افہام و تفہیم اور تعاون کی قراداد،
دسمبر 18′ 2009 کو ہر قسم کی عدم برداشت اور مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خاتمے پر قرارداد منظور کی گئی۔
ہفتہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بنیادی مقاصد میں ہر سطح پربین العقیدہ تعلقات کو پائیدار اور مضبوط بنانا اور دیگر عقائد کے بارے معلومات میں اضافہ کرنا شامل ہے۔
مذہبی ہم آہنگی کے فروغ اور اس کی نمائندگی کے لیے نارنجی یا اورنج رنگ کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ روایتی طور پرنارنجی رنگ سماجی رابطہ کاری اور بامعنی گفتگو کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کا تعلق خیالات کی آزادی اور باہمی احترام کی حوصلہ افزائی سے بھی ہے۔
آج کی معاشرتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہم درج ذیل سرگرمیوں کے ذریعے بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں مثلاً مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کے لیے مکالمے کی مختلف شکلوں سے حوصلہ افزائی کرنا، عقیدے کے اصولوں پر مکالمہ کرنا اور اُ س کے فلسفہ کو سمجھنا نیز سماجی انصاف اور ترقی کے لیے روزمرہ کی زندگی میں نتیجہ خیز مکالمے کو فروغ دینا ۔
فروغِ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے سرگرمِ عمل کارکنان متعدد چیلنجز کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جن میں مختلف مذاہب کے افراد کے درمیان تعصب، خوف اور عدم اعتماد شامل ہے۔ اس راہ میں ایسے سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل بھی رکاوٹ ہیں جو بین المذاہب تعلقات کے ٹوٹنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس طرح کی کوششیں ان تعصبات کو ختم کرنے، خوف سے چھٹکارہ پانے اور اعتماد کی فضاء کو بحال کرنے کی جانب قدم ہیں، جنھیں سراہا بھی جانا چاہیے اور ان کی تقلید بھی کی جانی چاہیے۔