پنجاب ہتکِ عِزت قانون 2024 (مختصر تَعارُف)

 

تحریر: یوسف بنجمن

20 مئی 2024 کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے منظور کئے گئے “ہتکِ عزت بل 2024” کو سماجی حلقوں میں آزادیِ صحافت ، اظہارِ رائے کی آزادی اور جمہوری رویے کے منافی قرار دے کر رد کرنے کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ یہ بل وزیرِ پارلیمانی امور مجتبیٰ شجاع الرحمان  نے پیش کیا اور اس میں موقف اختیار کیا گیا کہ اس کے نافذ ہونے سے یوٹیوب، ٹک ٹاک، ٹویٹر/ ایکس، فیس بک اور انسٹاگرام سمیت سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز پرغلط معلومات اورجعلی خبریں پھیلانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی اوراُن کے خلاف قانونی طور پر ہتک عزت کے مقدمات درج کیے جا سکیں گے۔

آئیے اس قانون پر سرسری نظر ڈالتے ہیں کہ یہ قانون ہے کیا؟ اس پر کس طرح عمل درآمد ہو گا اور سماجی حلقوں کو اس سے کیا خدشات ہیں؟

پنجاب اسمبلی میں پیش کئے گئے اس بل کو ” پنجاب ہتکِ عزت بل 2024″ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ فوری طورپر نافذ العمل ہے اوراس کا دائرہ کارصوبہ پنجاب ہے۔  حکومت کے مطابق اِس بل کا مقصد فیک نیوز (گمراہ کن ، جعلی اور جھوٹی خبروں) کو روکنا، اُن کا خاتمہ اور تدارک کرنا ہے۔ حکومتی حلقوں کا خیال ہےکہ اِس بل سے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف منفی پراپیگنڈے کو روکا جا سکے گا۔

بل کے مطابق ایسے تمام آئینی عہدے جن کا ذکر آئینِ پاکستان میں درج ہے کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا جن میں صدرِ پاکستان، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکرقومی اسمبلی، قائدِ حزب اختلاف، چیف جسٹس آف پاکستان، سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس صاحبان اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان شامل ہیں۔

گورنر پنجاب، وزیر اعلیٰ پنجاب، پنجاب اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف اوراسپیکر، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اور ممبران اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے خلاف بھی جھوٹی خبریں یا غلط معلومات پھیلانا قابلِ سزا جرم تصور ہو گا۔ چیف آف آرمی اسٹاف، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، ، چیف آف نیول اسٹاف اور چیف آف ایئر اسٹاف کو بھی اس قانون میں تحفظ فرام کیا گیا ہے۔

بل میں ” ہتکِ عزت ” سے مراد کسی ایسے جھوٹے یا فرضی بیان یا نمائندگی یا زبانی یا

تحریری طور پراظہار کے ذریعے یا الیکٹرانک و دیگر جدید ذرائع ابلاغ میں نشر کرنا ہے جس سے کسی کی ساکھ متاثر ہو اور اُسے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔ نیز کسی فرد کی نجی زندگی اور عوامی حیثیت کو نقصان پہنچانے والی خبروں پر قانون کے تحت مبینہ طور پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔

بل میں بیان کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ٹربیونل قائم کیا جائے گا اور اس کے سربراہ کے اختیارات لاہور ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہوں گے۔ اس ٹربیونل کو پنجاب ڈیفیمیشن ٹربیونل کا نام دیا جائے گا۔ نیز یہ خصوصی ٹریبوبل چھ ماہ میں ہتک عزت کے دعوے کا فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا۔

آئینی عہدوں پر فائز افراد کے خلاف الزامات کی صورت میں لاہور ہائی کورٹ کا بنچ کیس کی سماعت کا مجاز ہوگا۔ خواتین اور خواجہ سراؤں کے مقدمات کے لیے حکومتی قانونی ٹیم کی طرف سے قانونی مدد دستیاب ہوگی۔

اس ٹربیونل کے سامنے اگر کسی شخص کا جرم ثابت ہوجائے تو اُسے 30 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا اور وہ رقم اُس شخص کو ادا کی جائے گی جس کے خلاف اُس نے الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پرالزامات ، جعلی خبر یا کوئی بیان جاری کیا تھا۔

پنجاب میں نافذ العمل اس قانون کے تحت تمام آئینی اداروں کے سربراہ، حکومتی افراد اورعام شہری اِس قانون کے تحت اپنی شکایت درج کرا سکیں گے۔ اگر کوئی شخص الیکٹرانک، پرنٹ یا سوشل میڈیا پرکسی کو بدنام کرتا ہے یا الزامات لگاتا ہے تو متاثرہ شخص اپنی شکایت ٹریبونل میں درج کرواسکے گا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافتی ادارے اور تجزیہ نگار اس قانون کے حوالے سے چند خدشات کا ذکر کر رہے ہیں، مثلاً اس بل سے آزادی اظہارپر بندش اور میڈیا پر منفی اثرات کے خدشات ہیں۔ اس سے ایسی پابندیاں عائد ہو جائیں گی جو اظہارِ رائے کی آزادی اور صحافت کی آزادی کو محدود کر سکتی ہیں۔

ایک بڑی تشویش عدالتوں میں زیرِسماعت مقدمات پر بحث کرنے پر پابندی ہے۔ یہ پابندی اہم مسائل پرعوامی بحث اور میڈیا رپورٹنگ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ عوامی رائے میں ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ پابندی طاقتورافراد کوعوامی جانچ پڑتال اور احتساب سے بچا سکتی ہے۔

ذرائع ابلاغ سے وابسطہ انسانی حقوق کی محافظین کو ایک ڈر یہ بھی ہے اس قانون کی خلاف ورزی پر جرمانے کی دھمکی صحافیوں کی حساس موضوعات پررپورٹنگ کرنے کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ اُن کا یہ بھی موقف ہے کہ ملک میں وفاقی سطح پر پہلے سے قوانین موجود ہیں اس صورت میں اس طرح کے قوانین سے پنجاب حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔

حکومت کو حزبِ مخالف، صحافتی اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس قانون کے حوالے سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ اب دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں تمام حلقے کیا حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں اور حکومت اس صورتِحال کو کیسے سنبھالتی ہے۔

 

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading