جڑانوالا سے جڑانوالا ” ستان ” کا قیام

 

تحریر: یوسف بنجمن

لگ بھگ 30 سال قبل ضیائی دورسےشروع ہونےوالا ہمارا مجموعی ذہنی تعلیم وتربیت کا قافلہ قَریہ قَریہ، نگر نگراپنےعِلم ،انسان دوستی ،انسانی وقار ،حقوقِ نسواں ،اقلیتوں کی جان ومال کے تحفظ اورملک وقوم کا نام روشن کرنے اور اعلیٰ وقارکےجھنڈے گاڑنے کے بعد جڑانوالا سے ہوتا ہوا اب سرگودھا پہنچ گیا ہے۔

ہمارے اس قافلے کی ذہنی تربیت 1986 کے آس پاس چند مخصوص قوانین متعارف کروانے سے شروع ہوئی جنہیں قبولیت اور عدم قبولیت ہردو لحاظ سےخاصی شہرت ملی۔ ہمارا یہ قافلہ انہیں قوانین کا ثمر ہے، لہٰذا ہم ان قوانین کوگھول کر پی چکے اور ازبر بھی ہیں ۔ تین دہائیوں میں ہمارا قافلہ معاشرتی اقدار اورسماجی رویوں کی انگنت مثالیں قائم کر چُکا ہے۔ اپنے اثر ورسوخ سے ہم نصابِ تعلیم کو دورِ حاضر کے عین مطابق بنا چُکے۔ ہم ذہنوں کی آبیاری نہ کرنے والے مواد کواُٹھا کر باہر پھینک چُکے تاکہ معصوم ذہن پراگندہ نہ ہوجائیں۔ ہم نے خواتین کے احترام کو درجہِ اول سمجھا ، گردانا اور فروغ دیا۔ ہمارے قافلے نے خواتین کی عزت و وقار کے لئے نئے نئے، اچھوتے اور منفرد قوانین بنانے میں سہولت کاری کی ہے۔ ہمارے قافلے نے دیگرعقائد سے تعلق رکھنے والی لاتعداد جوان بچیوں کا مستقبل سنوارا، اُنہیں راہِ راست پرلائے اور اُن کے لئے جیون ساتھی بھی تلاش کئے گویا اُن کے ذاتی فیصلوں کی ذمہ داری بھی ہم نےاپنے کاندھوں پر اُٹھا لی۔

پچھلے سال اگست کی 16 تاریخ کو ہمارا قافلہ جڑانوالہ میں تھے ۔ وہاں سینکڑوں مسیحیوں کے خستہ حال مکانوں کا غم ہمیں کھائے جاتا تھا۔ اُن کی خستگی دور کرنے کے لئے ہم نے اُن کے گھروں کی “ازسرِنو” تعمیر و مرمت کا بیڑا اُٹھانے سے پہلے اُنہیں گرایا ، جلایا اور دھمکایا۔ اِس کےعلاوہ کوئی درجن بھر گرجہ گھروں کا کام ہونا بھی باقی تھا، اِس دوران اُن کا ” کام بھی تمام” کیا ۔ ہم میں خدمتِ خلق کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہے۔

جڑانوالا سے سرگودھا پہنچنے میں ہمیں نو ماہ اور آٹھ دن کا سفر طے کرنا پڑا۔ اس دوران ہم چاروں صوبوں کے مختلف شہروں میں کچھ ضمنی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ ان سرگرمیوں کی تفصیل چند ہفتوں تک پیش کر دی جائے گی۔

انسانی خدمت کے کسی بھی زاویے پر کام کرنا ہو ہمارا قافلہ صرف اپنے ٹارگٹ پر نظر رکھتا ہے۔ قانون شانون کی کوئی پروا نہیں بلکہ اکثراوقات ہمیں مقامی سطح پر سہولت کاری بھی حاصل رہتی ہے۔ ہمارے قافلے کے قائدین سمجھتے ہیں کہ کسی کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہئیے۔ سبھی کچھ قانون کے تابع ہونا چاہئیے۔ تحقیقات ہونا لازمی ہیں اور قانون کو اپنا راستہ اِختیار کرنا چاہیئے۔ ہم ایسی سرگرمیوں کے سخت خلاف ہیں جو قانون کے دائرہ سے باہر ہوں ۔ ہم سب کے مساوی احترام کی وکالت کرتے ہیں۔ اب دیکھیں ناں ! سرگودھا میں خوامخواہ ایک غریب خاندان پر محض شک کی بنا پر حملہ کردیا ، انہیں ہراساں کیا گیا اور مالی نقصان پہنچایا گیا۔

ہمارے ناقدین کے مطابق سرگودھا واقعہ پیچھلے سال کا باقی ماندہ ایجینڈا تھا جس کے لئے مناسب وقت اور ماحول نہیں مل رہا تھا۔ ویسے اتنی خبر تو ہم بھی رکھتے ہیں کہ اس طرز کے واقعات میں 90 سے زائد افراد کو شک کی بنیاد پرجان سے مارا جا چکا ہے، جن میں مُلکی، غیر مُلکی، اپنے، غیر، مرد اورعورت سبھی شامل تھے۔ ویسے ہمارا قافلہ سمجھتا ہے کہ ایسے واقعات میں مشتعل ہجوم کو حد میں رہنا چاہیے۔ حقیقت جانے بِنا یا پولیس کی تحقیات کا انتظار کئے بِنا قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا چاہئیے۔

ہمارا قافلہ سمجھتا ہے کہ ہجوم کے بھی کچھ آداب ہونے چاہئیں۔ یوں عام نہتے شہریوں پر ہلہ نہیں بولنا چاہئیے۔ اس طرح کا مشتعل ہجوم پہلے ہی لاکھوں افراد کی زندگیوں کی رنگینی تہس نہس کرچکا اور ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں اجیرن بنائی جا چکی ہیں۔ اس ہجومی رویے نے معاشرے کو مجموعی طور ہر بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ معاشرے میں صبر، تحمل، برداشت ، مکالمہ، تحقیق، رواداری، قبولیت اوردوسرا نقطہ نظرسُننے کے رحجان کا تقریباً خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ رویوں میں نہ صرف سختی اور تشدد کا عنصر بڑھ گیا ہے، بلکہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی آوازوں کو بھی دبایا جا رہا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ہمارے قافلے کا 1997 میں خانیوال کے شانتی نگر کو جلانے ، 2005 میں سانگلہ ہل کے گھروں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں ، 2009 میں قصور میں کوریاں اور اگلے ہی روز گوجرہ کی بستی کو تہس نہس کرنے اور 2013 میں لاہور کی جوزف کالونی ، مردان کے گرجہ گھر اور اسکول اور 2014 میں کوٹ رادھا کشن کی شمع اور شہزاد 2023 میں جڑانوالا میں سینکڑوں املاک کو نذرِآتش کرنے اور اب سرگودھا میں نقصِ امن میں خلل ڈالنے جیسے واقعات سے کچھ لینا دینا نہیں اور نہ ہی ہمارا اس سے کوئی سرورکار ہے۔ البتہ ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں یہ سانحات نفرت، عدم برداشت اور نظامِ انصاف پرعدم اعتماد کا ثبوت ہیں۔

کچھ دانشور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ذہنی تعلیم و تربیت کے لئے جس قافلے کو پال پوس کر جوان کیا گیا تھا وہ اب معاشرے میں ہونے والی زیادتیوں کی شدت میں صفِ اول میں کھڑا ہے جس کی مثال جڑانوالہ سے سرگودھا تک کا سفر اور وہاں کی رُودار ہے۔ وہ فرما رہے ہیں کہ سرگودھا جیسے سینکڑوں واقعات میں ذاتی رنجشیں اور گروہی معاملات کو حل کرنے کے لئے جذبات کے ساتھ کھیلا گیا ہے اور اس مجموعی صورتحال میں قانون کی حکمرانی انتہائی کمزور رہی۔

ہمارا قافلہ اہلِ دانش کی حکمرانوں کے نام سفارشات میں عام شہری کی زندگی، احترام اورحقوق کے فروغ کے لئے قانون سازی اورتمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زوردینے پر تو اُن کے ساتھ سہمت ہے مگر ہم جلد جڑانوالا سے جڑانوالا ” ستان ” کے قیام تک کا سفر مکمل کرنے والے ہیں یہ بات اپنی کھوپڑی میں جگہ نہیں بنا پا رہی۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading