ذاکر نائیک کا تنازعات سے بھرا ماضی

 

تحریر: یوسف بینجمن
متنازعہ بھارتی شہری ذاکر نائیک (جسے پیار سے نالائق بھی کہا جاتا ہے) جس دن سے پاکستان آیا ہے اپنے خیالات، بیانات اور منفی رویے کی وجہ سے سخت تنقید اور تنازعات کی زد میں ہے۔ اُس کا اندازِ گفتگو، الفاظ کا چناو اور موضوعات نہ صرف مذہبی نفرت کوبڑھانے کا سبب بن رہے ہیں بلکہ وہ ریاستِ پاکستان کیلئے بھی بدنامی کا موجب بنا ہوا ہے۔
ایک اشتہاری کو سرکاری مہمان بنانا اپنے تعیں ایک غلطی توتھی ہی دوسری جانب موصوف بھی کسی کا مہمان بننے کے نہ قابل ہیں اور ہی ایسے آداب سے واقفیت رکھتے ہیں۔ وہ تہذیب و تمیز سے مکمل طور پر عاری ہیں۔ اِسے نہ تو بچوں سے شفقت کی سُوجھ بوُجھ ہے ، نہ خواتین سے بات کرنے کا سلیقہ ۔ مذہبی اقلیتوں کو حقارت سے دیکھنا اور مذہبی شرانگیزی کو ہوا دینا اس کی شخصیت میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہے۔
مجموعی طور پر اُس کی نظر میں نہ تو ریاستِ پاکستان اور اُس کے حکمرانوں کی کوئی قدر و منزلت ہے اور نہ ہی وطنِ پاکستان کے شہریوں کی کوئی حیثیت ۔ وہ ذہنی مریض شخص نرگسیت کا شکار ہے اوراس پر صرف “میں” کا خمار ہے۔ خُدا خبر ایسے  شخص کو سرکاری سطح پر ریاستی مہمان بنانے کی کسے سوجھی کہ جو اپنے ملک میں متعدد مقدمات میں مطلوب ہونے کی وجہ سے سالہا سال سے فرار ہے۔
آئیے اس شخص کا وہ متنازعہ ماضی آپ کے سامنے رکھتے ہیں جو بہت سی آنکھوں سے اوجھل ہے۔
ذاکرعبدالکریم نائیک 18 اکتوبر 1965 کو عبدالکریم نائیک اور روشن نائیک کے ہاں بمبئی، انڈیا میں پیدا ہوا ۔ کشن چند چیلارام کالج سے ابتدائی اور ٹوپی والا نیشنل میڈیکل کالج اور بعد ازاں ممبئی یونیورسٹی سے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۔
نائیک اس وقت بھارت میں ایک مطلوب مفرور ہے۔ 2016 میں  بھارتی حکام نے نائیک پر منی لانڈرنگ کا اس وقت الزام لگایا جب وہ ملائیشیا کے دورے پر تھا۔ تب سے وہ اپنے دیس بھارت نہیں گیا اور ملائیشیا کا مستقل رہائشی بن گیا ہے۔
ذاکر نائیک بھارت میں چار سنگین نوعیت کے مقدمات میں مطلوب ہے جن میں الف) دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنا ، ب) دیگر مذاہب کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنا ، ج) فرقہ وارانہ منافرت بھڑکانا اور ان کے ساتھ ساتھ  د) اسے منی لانڈرنگ کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
نفرت انگیز تقاریر کے قوانین کی بنیاد پر اس کے پیس ٹی وی چینل پر بھارت، بنگلہ دیش، کینیڈا، سری لنکا، اور برطانیہ میں پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
۔2019 میں ایک غیر ملکی ادارے (آف کام) کی تحقیقات کے بعد براڈکاسٹنگ اتھارٹی نے نائیک کے پیس ٹی وی کا برطانیہ میں نشریات کا لائسنس معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔ علاوہ ازیں آف کام نے پیس ٹی وی اردو کے سابق لائسنس ہولڈرز کو نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر بھاری جرمانہ بھی کیا ۔
ماضی میں بھارت کے ہندو اورمسلمان شہریوں کی جانب سے بھی نائیک کی سرگرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور اس کی تعلیمات پرکڑی تنقید کی گئی۔ مثال کے طور پر بھارتی مصنف پروین سوامی نے الزام عائد کیا تھا کہ نائک کی تعلیمات تشدد کی وکالت کرنے والی تنظیموں سے ملتی جلتی ہیں۔
لکھنؤ کے ایک اسلامی اسکالر قاضی مفتی ابوالعرفان میاں فرنگی محلی نے نائیک پر دہشت گروں کی مالی معاونت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کے خلاف ایک فتویٰ بھی جاری کیا تھا۔
بریلوی بزرگ عالم دین اسجد رضا خان، شیعہ عالم قلبی جواد نقوی اور مغربی بنگال کے شاہی امام نور الرحمن برکاتی بھارت کے ان چند مشہور اور جید اسلامی مبلغین میں سے ہیں جنہوں نے نائیک کی جانب سے اسلام کی تشریح اور اس کی معلومات پر تنقید کی ہے ۔ وہ نائیک کے خیالات کو  “جھوٹے”، “شرارتی”اور “گمراہ کن” قرار دے چکے ہیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ ذاکر نائیک کے اشتعال انگیزی اور نفرت پر مبنی خیالات اور خطابات کی بنیاد پر 2010 میں اس کے برطانیہ اور کینیڈا میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
۔2016 میں ایک پریس کانفرنس کے دوران  ذاکر نائک نے خود کو غیر بھارتی شہری قرار دیا تھا۔
۔18 جولائی 2017 کو بھارتی حکومت نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کی سفارش پر ذاکر نائیک کا پاسپورٹ منسوخ کر دیا۔
۔28 جولائی 2017 کو بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے نائیک کو مجرم قرار دیا اور اس کے اثاثوں کو ضبط کرنے کی کارروائی شروع کی۔
ذاکر نائک فی الحال ملائیشیا میں مقیم ہیں، جہاں انہیں مستقل رہائشی کا درجہ حاصل ہے، گویا متنازعہ اور ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے اپنے ملک سے ہی بے دخل کر دیا گیا یے۔
معلومات کا ماخذ:  https://en.wikipedia.org/wiki/Zakir_Naik
اس سارے متنازعہ پس منظر کے حامل شخص کو سرکاری مہمان نہیں بنایا جانا چاہئیے تھا۔ وہ دہائیوں سے مذہب کی بنیاد پر نفرتیں پھیلا رہا ہے اور اسی عمل کو وہ پاکستان آ کر بھی فروغ دے رہا ہے۔
مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں نے اس کے اس منافرانہ رویے کی بھر پوُر مذمت کی ہے۔ حکومت پر ایسے غیر ذمہ دارشخص کو سرکاری مہمان بنانے پر بھی تنقید جاری ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسے فی الفور پاکستان سے بے دخل کیا جائے اور آئیندہ پاکستان میں داخلے پر پابندی عائد کی جائے۔
انسانی حقوق اور فروغِ امن و مذہبی ہم آہنگی کے کارکنوں نے نائیک کی موجودگی کو مختلف مذاہب کے مابین مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی گھناونی سازش قرار دیا ہے۔
پاکستان کے شہری عدم برداشت سے بھرے اس معاشرے میں جو کئی دہائیوں سے عقائد کی بنیاد پر نفرتوں اور سانحات کو جھیل رہے اور مذہبی عدم رواداری کی بنیاد پر جنازے تک اُٹھاتے آئے ہیں وہ ایسے وقت اور ماحول میں ایسے متنازعہ اور جنونی شخص کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے ، لہٰذا اسے فوراً ملک سے چلے
جانا چاہیئے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading