تحریر: یوسف بینجمن
ہمارے ہاں حکومتوں نے شہریوں کے حقوق کا معیار اپنے مفادات کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود اور حقوق کی نہ کوئی قدر و قیمت ہے نہ عوام کی کسی سطح پر شنوائی۔ حکمران ملک میں عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتے ہیں اور بین القوامی سطح پر حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔ ان حکمرانوں کی نااہلیاں ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت دیکھنے میں آیا جب اقوامِ متحدہ میں جاری شہری اور سیاسی حقوق کی کمیٹی نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو انتہائی غیر تسلی بخش قرار دے دیا ہے۔ یہ خبر سُنتے ہی ہماری ساری خوشیاں کافُور ہو گئیں اور دل و دماغ وطنِ عزیز میں بیتے گزشتہ ماہ و سال کے اہم واقعات گردش کرنے لگے تو شرمساری کے سوا دامن میں کچھ بھی نہ تھا۔
اقوامِ متحدہ کی شہری اور سیاسی حقوق کی کمیٹی کا 42 واں اجلاس پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے 17 اور 18 اکتوبر کو جنیوا میں منعقد ہوا۔ پاکستان نے 2010 میں اقوامِ متحدہ کے ” شہری اور سیاسی حقوق” کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کی توثیق کی تھی اور اس سلسلے کا پہلا جائزہ اجلاس 2017 میں منعقد ہوا تھا۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی حکام کی توجہ اہانتِ دین سے متعلق پُر تشدد واقعات میں اضافے کی جانب مبذول کروانے سمیت حکومتی سطح پر انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکامی کی نشاندہی کی ہے۔
مذہبی اقلیتوں پر مسلسل حملوں، تکفیر کے الزامات، قتل وغارت، جلاو گھیراو، ہجومی تشدد، جبری تبدیلی مذہب، کم عمری کی جبری شادیاں اورعبادت گاہوں کی بے حرمتی جیسے واقعات پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ پاکستانی معاشرہ مذہبی تنوع کے حوالے سے تیزی سے عدم برداشت اور تنزلی کا شکار ہے۔ شہریوں کی گمشدگیوں اور سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قائم مقدمات کو کمیٹی نے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ۔
بجائے اس کے کہ فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 2023 فرقہ واریت کو روکنے کا سبب بنتا اس میں مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز کلمات کے استعمال کی سزا کو تین سال قید سے بڑھا کرعمر قید تک کرنے سے بھی مذہبی اقلیتوں اور دیگر اقلیتی فرقوں پر ظلم و زیادتی میں اضافہ ہوا ہے۔
کمیٹی نے مسیحی اور ہندو لڑکیوں کے اغوا، جنسی زیادتی کا شکار ہونے اور جبراً تبدیلی مذہب کے واقعات میں اضافے کو بھی نا قابلِ قبول قرار دیا ہے۔ انسانی حقوق کی اس کمیٹی کو سرکار نے بتایا تھا کہ ملک میں ایسے واقعات کی تعداد فقط 74 کے قریب ہے، بہرحال اقوامِ متحدہ کی کمیٹی کے تمام ارکان نے اس حکومتی دعوے کو یکسر مسترد کر دیا۔ کمیٹی کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 2017 سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2004 سے 2024 کے درمیان جبری گمشدگیوں کے کم از کم 7000 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اس ادارے نے علیحدگی پسندوں، سیاسی مخالفین، کارکنوں اور صحافیوں کے ماورائےعدالت قتل کی رپورٹس پر بھی غور کیا اور حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگی کو ابھی تک جرم قرار نہیں دیا گیا۔ یو این ایچ سی آر جسے کمیٹی برائے شہری اور سیاسی حقوق بھی کہا جاتا ہے، یہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقوامِ متحدہ کا ایک اہم ادارہ ہے کہ انسانی حقوق صرف کاغذوں پر موجود نہ ہوں بلکہ ممبر ریاستوں کی جانب سے عملی طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے پاکستان کے ریاستی وفد سے اس متعلق وضاحت طلب کی کہ حکومت کس طرح اس بات کو یقینی بنائے گی کہ انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ نہ بنیا جائے نیز انسداد دہشت گردی ایکٹ کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظین کے لیے حفاظتی اقدامات کے بارے استفسار کرتے ہوئے کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ تین سال قبل پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ کے نفاذ کے باوجود اس کا نفاذ کمزور رہا، اور یہ کہ ایکٹ کے تحت مطلوبہ کمیشن کا قیام ابھی باقی ہے۔ کمیٹی نے پاکستان میں انٹرنیٹ کی مسلسل بندش اور سوشل میڈیا ایپس کی بندش یا سست روابط کی بھی نشاندہی کی، جس سے معلومات پر کنٹرول اور اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کے خدشات بڑھتے ہیں۔
یونیورسل پریوڈک ریویو (یو پی آر ) یا جسے عالمی معیادی جائزہ رپورٹ بھی کہا جا سکتا ہے ایک منفرد عمل ہے جس میں اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جاتا ہے۔ عموماً ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا یہ جائزہ ساڑھے چار سال بعد لیا جاتا ہے ۔ یو پی آر انسانی حقوق کونسل کی ایک اہم اختراع ہے جو تمام ممالک کے ساتھ یکساں سلوک پر مبنی ہے۔ یو پی آر کے اس نظام کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مارچ 2006 میں تشکیل دیا تھا۔
یو پی آر کا حتمی مقصد ہر ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانا ہے کہ جس کا اثر لوگوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا یہ اجلاس پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو کیسے بہتر بنا سکتا ہے یہ خواب ہم برسہا برس سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ ایک نظر کسی بھی نظام پر ڈال لیں تو کہیں بھی کچھ بھی بہتر نظر نہیں آتا۔ سیاسی افراتفری، پولیس کے رویے اور تحقیقاتی نظام، نظامِ عدل، عام شہری کی جان و مال و تحفظ، خواتین، بچوں، مزدوروں، اقلیتیوں کے مسائل، تعلیمی اداروں کا معیار اور صحت کی سہولیات کا فقدان۔ کچھ بھی سوچ لیں نہ تو کچھ اچھا ہے نہ عنقریب کچھ اچھا ہونے کی اُمید۔
انسانی حقوق کی تعلیم و تربیت کی جدوجہد اور جانکاری کی ہر سطح پر کوششیں جاری رکھنا ہی ایک حل نظر آتا ہے، تاکہ شہری اپنے حقوق کو جان سکیں اور بہتر سماج کی بنیاد رکھی جا سکے۔
نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔