“بوسہ”
تحریر: جاوید یاد
کل شام جب میں ایک باغ میں گھاس پر بیٹھا کچھ لکھنے کا سوچ رہا تھا تو اچانک ایک پری چہرہ آن دھمکی اور کہنے لگی مجھے دیکھو ذرا میں کتنی خوبصورت ہوں۔میری آنکھیں نرگس کے پھولوں کو شرماتی ہیں،میرے نرم اور ملائم گال سیب سے ذیادہ سرخ ہیں،میرے ھونٹوں سے امرت رس ٹپکتا ہے،میری باہوں میں صندل کی مہک ہے،میرا لباس تو دیکھو کتنا پر کشش ہے،سن نہیں رہے تم میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔ذرا دیکھو تو سہی ۔۔۔۔۔۔۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا،وہ چلی گئی اور میں ایک بار پھر سوچوں کے سمندر میں موجزن ہو گیا۔
لیکن کچھ دیر بعد پھر آہٹ ہوئی اب ایک خوبرو نوجوان میرے سامنے کھڑا تھا۔مجھے بھی دیکھو دوست مجھ میں کیا کمی ہے،میں دراز قد ہوں،مہرا جسم مضبوط ہے،میرا سینہ فراخ ہے،میرے بال خوبصورتی سے تراشے ہوئے ہیں،میرا لباس جدید ترین فیشن کے مطابق سلا ہے،میری چال میں تمکنت اور میری نگاہ میں کشش ہے دیکھو تو سہی میں کتنا خوبصورت لگ رہا ہوں ۔میں نے ایک بار پھر اپنی بوجھل پلکیں اٹھائیں اور میرے ہونٹوں پر ایک بار پھر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
تب میں وہاں سے اٹھا اور ایک شخص کو تلاش کیا بلکے بڑی مشکل سے تلاش کیا۔ وہ برسوں کا مریض لگ رہا تھا،اس کے کپڑے نہایت بوسیدہ اور پرانے تھے۔ اور چہرے پر بدنما داغ ۔۔۔۔۔ میری آہٹ سن کر اٹھا۔ مجھے پیار سے بیٹھایا اور کھانا بھی کھلایا، میرے کچھ کہنے سے پہلے وہ بول پڑا۔میں ان تنگ اور تاریک گلیوں میں بڑا خوش ہوں، میں یہاں بڑے سکون سے رہتا ہوں. میں نے اپنی ساری دولت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی ہے، میرے سارے کپڑے بھی انہیں کے کام آئے ہیں۔
میرے چہرے پر یہ داغ بھی پڑوسی کی ایک بچی کو آگ سے بچاتے ہوئے لگے ہیں۔ لیکن میں خوش ہوں کہ یہ مجھے دوستوں کی مدد کرنے سے ملا ہے۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے وہ شخص بڑا سندر لگا، بڑا ہی پیارا،میں نے بڑھ کر اس کے چہرے پر بوسہ دیا ۔۔۔۔۔ بالکل وہاں جہاں بدنما داغ تھے۔