ہیٹ ویو سے کم آمدنی والا طبقہ کیسے زیادہ متاثر ہوتا ہے

 

تحریر: زاہد فاروق

گزشتہ چند سالوں سے موسمیاتی تبدیلی کا عمل جو آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہا تھا وہ اب گزشتہ دو سالوں سے بہت زیادہ محسوس ہونے لگا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے ہر قسم کے عوام پریشان ہیں دہی علاقوں میں پریشانی ہے شہری علاقوں میں پریشانی ہے نوجوان بزرگ بچے خواتین سب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ عام طور پر اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ جو ہے وہ ہریالی کی کمی کو کہا جاتا ہے جنگل کاٹے جا رہے ہیں علاقوں میں موجود درخت کاٹے جا رہے ہیں ایک بڑا مافیا اپنے مالی مفادات کیلئے جنگلوں کی لکڑی کٹوا کر اس سے اپنے لئے مالی وسائل پیدا کر رہا ہے اور دوسری جانب عوام کی ایک بڑی تعداد کو دن بدن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایک طرف تو لوگوں کی ضرورت کے مطابق اب بارش ہوتی نہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو بہت کم وقت میں بہت زیادہ مقدار میں بارش ہوتی ہے بارش برسنے کا موسم تبدیل ہو رہا ہے بارش جن علاقوں میں تسلسل سے برستی تھی اب وہ علاقے تبدیل ہو رہے ہیں۔ایک طرف برف کے بڑے بڑے گلیشر پگھل رہے ہیں دریاؤں میں جب وہ گلیشر پگل کر پانی اتا ہے تو سیلاب اتا ہے گلیشر پگھلنے کا پانی اور بارش کا پانی مل کر بڑے سیلابوں کا سبب بنتے ہیں کم آمدنی والا طبقہ ان کے گاؤں ان کے گوٹھ کے گھر ان کے مال مویشی ان کی زرعی زمینیں ان کے آبادیوں کے راستے ان کے گھروں میں موجود تمام زرعی اجناس متاثر ہو جاتی ہیں۔خواتین بچے اور بزرگ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
شہری علاقوں میں بھی موسم کی تبدیلی سے مسائل نہ صرف پیدا ہو رہے ہیں بلکہ مسائل بڑھتے جا رہے ہیں 2020 میں تو یہ محاورہ درست ثابت ہوا کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز یعنی کلفٹن ڈیفنس میں بھی پانی جمع تھا اور نیو کراچی اورنگی ٹاؤن ناظم آباد اور نیا ناظم آباد میں بھی پانی کی نکاسی میں رکاوٹیں تھیں۔اور اسی سیلاب کی بنیاد بنا کر گجر نالہ اور اورنگی نالہ اور منظور کالونی نالہ کے پاس کے گھروں کی ایک بڑی تعداد کو نالوں کی صفائی کے نام پر بے دخل کیا گیا۔ متاثرین کی بحالی کا عمل تاحال شروع نہیں ہو سکا معاملات عدالت عظمی میں زیر التوا ہیں ۔
موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ کم آمدنی والا طبقہ اس طرح زیادہ متاثر ہو رہا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کے گھروں کا سائز دن بدن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور ان گھروں کے مکینوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اب تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ 10 سے 12 بچوں کے گھر میں دو شادی شدہ فیملیز اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہیں جائیداد کی تقسیم کی وجہ سے اب کم آمدنی والوں کی آبادیوں میں بھی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں کراس وینٹیلیشن ختم ہو گئی ہے چھوٹے چھوٹے گھر ہے چھوٹی چھوٹی گلیاں ہیں جن کی صفائی کا کوئی نظام نہیں سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے اہلکار بڑی سڑکوں کی صفائی کر کے سمجھتے ہیں کہ شہر صاف ہو گیا جبکہ علاقوں میں چھوٹی گلیاں کچروں سے بھری رہتی ہیں گندی ہوتی ہیں کچرہ ہوتا ہے ماحول گندا ہوتا ہے اس کے علاوہ کم آمدنی والے طبقے میں 2005 کے بعد موٹر سائیکلوں قیمتوں میں کمی اور آسان اقساط پر دستیابی سے استعمال کا رجحان بڑا اور اب ان آبادیوں میں اتنی زیادہ موٹر سائیکلیں ہو گئی ہیں کہ ان موٹرسائیکلوں کو گلیوں میں پارک کرنا ایک مسئلہ ہے گھروں کے اندر پارک کرنا رات کے وقت ایک مسئلہ ہوتا ہے لوگوں کے گھروں میں ناراضگیاں بڑھ رہی ہیں موٹر سائیکلوں کی پارکنگ کی وجہ سے اس طبقے کو نہ تو ان کی ضرورت کے مطابق پانی کی فراہمی ہو رہی ہے اور نہ ہی بجلی کی سپلائی ان کی ضرورت کے مطابق ہے بجلی کا مہنگے بل اب سب کے لئے جمع کرنا ممکن نہیں رہا پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں 30 گیلن پانی کی ٹنکی کم از کم ایک ہزار روپے میں میسر آتی ہے اور ان کی گلیوں کا سائز اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ پانی کا ٹینکر وہاں نہیں پہنچ سکتا لوگ مجبور ہیں کہ وہ چھوٹی چھوٹی ٹنکیوں سے اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل کریں اور پانی کے خرچ پر بھی گھروں کے اندر ناراضگیاں ہوتی ہیں پانی کا استعمال بڑھتا ہے تو بھی ناراضگیاں ہوتی ہیں۔ پانی کی قلت کی وجہ سے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق نہ تو نہا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی دیگر ضروریات کیلئے وافر پانی استعمال کر سکتے ہیں جو لوگ بل دیتے بھی ہیں ان کے گھروں میں بھی لوڈ شیڈنگ کم از کم 12 گھنٹے ہو رہی ہے 12 گھنٹے عام لوڈ شیڈنگ ہے بچوں کے امتحان ہوں موسم کی سختی ہو دن ہو رات ہو لوڈ شیڈنگ ضرور ہوتی ہے اور جب لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے تو ان آبادیوں میں مسائل بڑھتے ہیں مرد تو پھر بھی گلی میں بیٹھ جاتے ہیں بچے گلیوں میں کھیلتے ہیں لیکن لڑکیاں اور خواتین گھروں کے اندر رہنے پر مجبور ہوتی ہیں ان کے لباس کی ساخت اور جسمانی ضروریات ان کیلئے زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اگر بجلی بھی جائے تو کبھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ یا کسی ٹیکنیکل بنیاد پر کبھی بھی بند ہو سکتی ہے کبھی کبھی تو رات کو یہ تجربہ بار بار کیا جاتا ہے کہ الیکٹرک کے ذمہ داران عوام کے صبر کو آزماتے ہیں آپ تصور کریں کہ رات کو دو بجے لائٹ چلی جائے دو تین گھنٹے کیلئے اس وقت چھوٹے چھوٹے گھروں میں چھوٹے چھوٹے کمروں میں اس صورتحال کا سامنا خواتین اور بچوں کو کرنا پڑتا ہے مردوں کو کرنا پڑتا ہے صبح ان کو کام کیلئے جانا ہے خواتین کو بچوں کی ضروریات کے ساتھ ساتھ بھی کام کیلئے بھی نکلنا ہے یہ ساری صورتحال دن بدن سنگین ہوتی جا رہی ہے اس طبقے میں اب ڈپریشن بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض بہت تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔
علاج کی سہولت ان آبادیوں میں میسر نہیں ہوتی عام طور پہ لوگ صرف اس لئے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے کہ ایک تو ڈاکٹر کی فیس دینا ہوگی دوسرا ڈاکٹر میڈیسن باہر سے لکھ کے دے گا اور تیسرا وہ لیبارٹری کے دو تین ٹیسٹ لکھ کے دے دے گا تو لوگ صرف اس لئے ڈاکٹروں کے پاس نہیں جاتے کہ ڈاکٹروں کے پاس جائیں گے تو وسائل کہاں سے لائیں گے اگر وہ ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں تو جو دوائی ڈاکٹروں دیتے ہیں وہ تو استعمال کرتے ہیں لیکن نہ تو وہ میڈیکل ٹیسٹ کرواتے ہیں لیبارٹری سے اور نہ ہی وہ میڈیکل سٹور سے وہ میڈیسن لیتے ہیں جو ڈاکٹر نے ان کیلئے تجویز کی ہوتی ہیں کم از کم میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جن کی صحت صرف اس لئے متاثر ہوئی کہ انہوں نے تین وقت کی بجائے دو وقت کا کھانا شروع کر دیا ہے اور کھانے میں بھی سادہ کھانا وہ کھانا جو عام آدمی کی نیوٹریشن کی ضرورت کے مطابق نہیں ہے اس کی صحت کے مطابق نہیں ہے تو یہ سارے مسائل ہیں جو آج کے کم امدنی والے طبقے کو سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے ہاں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے شام کو رات گئے اگر کسی سماجی تقریب میں جانا پڑے غمی خوشی میں جانا پڑے تو ٹرانسپورٹ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے اس کا اثر سماجی میل ملاپ پر پڑتا ہے سماجی میل ملاپ دن بدن محدود ہوتا جا رہا ہے کم عمر بچوں میں خواتین میں موبائل کا استعمال بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے اس کی وجہ سے نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں بہت سارے مسائل یہاں پہ ایسے مسائل کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے اب کسی آبادی میں خاص کر کم آمدنی والی آبادی میں درخت نہیں بیس پچیس سال پہلے گھروں میں درخت ہوتے تھے اب نہیں ہے گھروں کی تقسیم کے وقت درخت کٹ گئے ہیں کراچی شہر میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر درخت کٹے گرین لائن منصوبہ جب شروع ہوا تو ناظم آباد بقائی ہاسپٹل سے لے کے ناگن چورنگی تک بہت زیادہ درخت تھے گرین بیلٹ میں درخت تھے لیکن اب چند درخت لگائے گئے ہیں اسی طرح ریڈ لائن منصوبے میں یونیورسٹی روڈ پر سےدرخت کاٹے جا رہے ہیں گرین لائن منصوبے کے تحت ایم اے جناح روڈ پر سے صدیوں پرانے درخت کاٹے گئے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ ہم درخت لگاتے ہیں ایک درخت کی بجائے چار درخت لگاتے ہیں لیکن کہاں لگاتے ہیں گرین لائن منصوبے میں کم از کم وہ نظر نہیں آتے ضروری ہو گیا ہے کہ شہر میں جنگلات زیادہ اگائے جائیں گرین بیلٹ میں درخت لگائے جائیں اور درخت بھی نیم کے بوہڑ کے اور پیپل کے لگائے جائیں جو سایہ دار ہوں۔
اور جب موسم میں سختی ہو ٹمپریچر 38 ڈگری سے اوپر چلا جائے تو کراچی کے شہریوں کیلئے خاص کر کم آمدنی والے طبقے کیلئے پانی اور بجلی کی فراہمی کو ان ضروت کے مطابق یقینی بنایا جائے انکو یہ سہولت فراہم کی جائے تاکہ لوگوں کو کچھ ریلیف مل سکے۔ کراچی میں ایسے مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں مزید جنگلات لگائے جا سکیں اور جو بھی جنگلات لگائے جائیں ان کی حفاظت کے لیے وہاں پانی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے بلدیاتی ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ ماحول سے متعلق جو بھی تنظیمیں ہیں وہ ضرور ان علاقوں میں ان مقامات پر شجرکاری کی مہم نہ صرف چلائیں بلکہ اس کی مسلسل دیکھ بھال بھی کریں اور درختوں کو لگایا جائے تاکہ شہر کا ماحول بہتر ہو شہریوں کو کچھ ریلیف ملے شہریوں کا جینا آسان ہو اور ہم انسانوں نے جو ریتی بجری کے پہاڑ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر کھڑے کیے ہیں ان میں جہاں بھی ممکن ہو ہریالی کا انتظام کیا جائے۔
موجودہ سہولیات موجودہ وسائل میں تو لگتا ہے کہ کم آمدنی والے طبقے کی اکثریت کو زندگی گھسیٹ کر چلا رہی ہے ان میں اب سکت نہیں کہ وہ اپنی زندگی کو خود چلا سکیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ زندگی کو چلا سکیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کیلئے کچھ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading