تیز بارشیں حفاظتی ادارے

 

 

تحریر: ذاہد فاروق

محکمہ موسمیات کی پیشن گوئی کے مطابق 26 اگست سے 29 اگست تک کراچی سمیت پورے پاکستان میں تیز ہواؤں کے ساتھ طوفانی بارش کا امکان ہے۔راولپنڈی اسلام اباد جہلم چکوال پنجاب کے اور دیگر علاقوں میں بارش کے بعد اب اندرون سندھ مٹی کر پار کر کے گردنوا میں بھی شدید بارشیں ہو رہی ہیں اور اج 26 اگست رات ساڑھے دس بجے کراچی کے علاقوں بہادر اباد طارق روڈ نارتھ ناظم اباد پہاڑ گنج ناظم اباد خدا کی بستی گڈاپ ٹاؤن گلشن معمار شاہ فیصل کالونی سمیت کچھ اور علاقوں میں میں بھی تو یہ تیز ہواؤں کے ساتھ شدید بارش ہوئی ہے
گرج چمک اور تیز ہواؤں کے ساتھ بارش کی جب پیشن گوئی ہوئی تو میئر کراچی مرتضی وہاب نے بلدیاتی اداروں میں رین ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے تمام بلدیاتی ملازمین کی چھٹیوں کو ختم کر دیا اور اب صوبائی وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی رین ایمرجنسی صوبے بھر میں نافذ کر دی ہے انتظامیہ کو الرٹ کر دیا ہے اور وہ تمام ادارے جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو محفوظ مقامات تک پہنچائیں بارش سے محفوظ رکھنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں ان تمام انتظامی اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
یہاں جو مسئلہ گزشتہ سالوں میں دیکھنے میں اتا ہے وہ یہ ہے کہ انتظامی ادارے اپنی مرضی سے اقدامات کرتے ہیں منتخب بلدیاتی اداروں کی کونسلوں کے ممبران سے وہ رابطہ نہیں کرتے ان کو مشاورت کے عمل میں شامل نہیں کرتے اور انتظامی ادارے خود ہی لوگوں کے لیے امدادی کاروائیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر حکومتی اداروں کے پاس مالی وسائل بہت ہوں عملہ تربیت یافتہ ہو پانی بجلی گیس کا مسئلہ دوران بارش پیدا نہ ہوتا ہو تو عوام کو کئی طرح سے انداز مل سکتی ہے کئی طرح سے ان کو انے والے موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے اگاہ کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے ہی بارش شروع ہوتی ہے بجلی چلی جاتی ہے گیس کبھی اتی ہے کبھی نہیں اتی اگر بجلی چلے جائے تو اس میں سگنل بھی متاثر ہوتے ہیں اس میں ٹیلی ویژن سے خبریں نہیں مل سکتی ریڈیو اب تقریبا شہری علاقوں میں نہیں دیکھا جاتا کئی علاقوں میں تو اب ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھا جاتا۔جن لوگوں کو خبروں سے دلچسپی ہوتا ہے وہ اپنے موبائل ہی سے خبریں سن لیتے ہیں یا دیکھ بھی لیتے ہیں اب ریڈیو اور ٹی وی سے خبریں سننے کا رواج بھی ہمارے سماعت سے ختم نہیں تو کم ضرور ہو گیا ہے
بہت سارے لوگ موسمی حالات سے بے خبر رہتے ہیں خبروں میں دلچسپی نہیں لیتے اور کئی بار تو ان کو موسم سے متعلق جو پیشن گوئیاں ہوتی ہیں ان کا بھی ان کو یہ یقین نہیں ہوتا۔
اب ضرورت ہے کہ نیو کراچی اللہ والی کالونی کے ارد گرد نیا ناظم آباد کی ابادیوں اور منظور کالونی والا نالہ ہے اس کی طرف توجہ دی جائے کہ یہاں پانی رکے نہ پانی کے بہاؤ کو رواں دواں رکھا جائے اور جہاں صفائی کی ضرورت ہے وہاں صفائی کی جائے منظور کالونی نالے میں جہاں جہاں ڈیفنس کا پانی داخل ہوتا ہے ان انٹری پوائنٹس کو صاف کیا جائے اور جہاں بھی پانی پلوں کے نیچے سے گزر کر اگے بڑھتا ہے جیسے گجر نالہ ہے اس سے اگے اگر ہم پڑھیں تو سپر مارکیٹ ہے لیاقت اباد پھر شاہراہ فیصل ٹیپو سلطان فلائی اوور کے نیچے نالہ ہے ریلوے ٹریک اپ ڈون کے نیچے نالہ ہے اسی طرح کرنگی روڈ پر محمود اباد نالہ جب ڈیفنس میں داخل ہوتا ہے تو اس پوائنٹ پر اور پھر محمود اباد سے یہ نالہ جب ڈیفنس فیز سیون ایٹ سے گزری کریک سے جا کے یہ سمندر میں گرتا ہے تو اس نالے میں تین ایسے گیٹ ہیں جہاں سے ڈیفنس کا پانی اس نالے میں گرتا ہے اور گزری کریک پاس کےٹنل ہے ان کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ گیٹ صاف ہوں پچھلے سیلاب میں یہ دیکھا گیا کہ 18 گیٹوں میں سے صرف چار گیٹ ایسے تھے جہاں سے پانی گزر کر سمندر میں جا رہا تھا تو ضرورت ہے کہ ان کی صفائی کی جائے۔کے ڈی اے چورنگی اورحیدری دو ایسے مقامات ہیں نعت ناظم اباد میں جہاں پر 1975 سے لے کر اج 2024 تک ہم بارش کے دوران میں پانی کو جمع ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں بیسیوں بار کے ڈی اے چورنگی نارتھ ناظم اباد کی ری ڈیزائننگ ہوئی ہے لیکن نکاسی اپ کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔گرین لائن منصوبے کی وجہ سے نارتھ ناظم اباد پہاڑی علاقوں سے بارش کا پانی گجر نالے میں داخل ہونے میں رکاوٹیں ہو گئی تھی اب نارتھ ناظم اباد کے تمام برساتی نالوں کو ری ڈیزائن کیا گیا ہے۔لیکن مسئلہ ابھی بھی مکمل طور پر حل نہیں ہوا۔بلاک پی اور کیو کے درمیان واقع برساتی نالے پر تمعیرات ہو چکی ہیں صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا سارا پانی مٹکا گلی پہاڑ گنج بلاک کیو نارتھ ناظم اباد میں ا جاتا ہے محلے کی ایک بڑی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں سے خواتین بچوں طلبہ طالبات کو گزرنا مشکل ہو جاتا ہے سارا گند گلی میں داخل ہو جاتا ہے لوگوں کے گھروں میں پانی داخل ہوتا ہے۔

گجروں نالہ گجر نالہ کی طرف انتظامیہ کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے وہ اس لیے کہ اب جب نالے کی ازسر نو توسعیح شدہ تعمیر مکمل ہوئی ہے تو اس نالے کے دونوں اطراف میں واقع مکانات نالے سے نیچے ہو گئے ہیں نالے کے ساتھ جو سڑک کی تعمیر کے لیے مٹی ڈالی گئی ہے اب وہ ارد گرد کی ابادی کی گلیوں سے بلند ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان ابادیوں میں سے جو پانی گجر نالے میں داخل ہونے کے مقامات ہیں وہ بلندی پر ہیں اور پانی کے داخلے میں اب کئی رکاوٹیں بھی سامنے ائیں گی لوگوں کے گھر جو ہیں وہ روڈ سے نیچے ہیں اور پانی اب لگتا ہے کہ جو کچی سڑک ہے دونوں اطراف میں وہاں سے پانی لوگوں کے گھروں میں گلیوں میں داخل ہوگا اور لوگوں کے گھروں کے اندر لازم ہے کہ ان کا گراؤنڈ فلور بہت زیادہ متاثر ہوگا۔سعدئ ٹاؤن گڈاپ ٹاؤن صرف زیادہ اس لیے متاثر ہوں گے کہ نادرن بائی پاس کے نیچے ایسے ٹنل نہیں بنائے گئے جہاں سے جو بارش کا پانی کیرتھر پہاڑ اور جنگلات سے گڈاپ میں داخل ہوتا ہے اور وہاں سے یہ پانی لیاری ندی ملیر ندی اور پھر گجرنالے سے ہو کر لیاری ندی میں گرتا ہے وہاں نادرن بائی پاس کے نیچے بھی کوئی ایسی گزرگاہ نہیں بنائی گئی کہ جہاں سے پانی گزر کر خدا کی بستی کے دونوں اطراف میں جو نالے ہیں وہاں سے یہ گجر نالے میں داخل ہو سکے۔کورنگی شہر سے ملانے والی اہم کازوے جو ملیر ندی کے اندر سے گزرتی ہے بارشوں میں وہ راستہ بند ہو جاتا ہے کورنگی کے رہنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کاز وے پل بنانے کا منصوبہ گزشتہ سال ہنگامی بنیادوں پر بنایا گیا تھا لیکن ابھی تک وہ منصوبہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
عوام کو اس دوران میں پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہو سکتا ہے ادویات اور کھانے پینے کی اشیاء کی ضرورت پڑ سکتی ہے عوام کو ہنگامی صورتحال میں کون کون سا ادارہ کیا امداد دے سکتا ہے انتظامی اداروں کا کردار کیا ہے منتخب اداروں کا کردار کیا ہے ان امور کو پہلے بیٹھ کر طے کرنا چاہیے تاکہ ایمرجنسی کی شکل میں لوگوں کو بروقت امداد مل سکے۔بلدیاتی اداروں کی کیا ذمہ داری ہے اور کمشنر کراچی کے زیر کنٹرول انتظامی اداروں کی کیا ذمہ داری ہے کون کیا ذمہ داری انجام دے گا عوام کو ریلیف کیسے میسر ائے گی منتخب نمائندوں کا کیا کردار ہوگا سماجی ادارے اس سارے کام میں کیا کیا معاونت فراہم کر سکتے ہیں ان سارے مسائل پر غور کر کے ہر ادارے کو اس کا کردار بتایا جائے۔
لیاری ندی میں عیسی نگری کے پاس ندی کے پارٹ کے دونوں اطراف میں سینکڑوں جھو نپڑیاں بن چکی ہیں۔یہی صورتحال تین ہٹی کے پل کے نیچے ہے وہاں بھی ندی کے پاٹ میں جھونپڑیاں ہیں۔بہت ساری خاندان گروپ کی شکل میں مختلف فلائی اوورز کے نیچے بھی رہ رہے ہیں ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو ہنگامی طور پر محفوظ مقامات تک پہنچایا جائے۔

 

نوٹ: وائیٹ پوسٹ کے کسی بھی آرٹیکل، کالم یا تبصرے میں لکھاری کی ذاتی رائے ھے جس سے ادارے کا متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں۔

By admin

Related Post

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Discover more from دی وائیٹ پوسٹ

Subscribe now to keep reading and get access to the full archive.

Continue reading